ساٹھ کی دہائی میں دیگر مغربی ممالک کی طرح جرمنی میں بھی جنسی آزادی کا دور شروع ہوا۔ تب دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد ازسر نو تعمیر ہوتا ہوا براعظم یورپ ایک نئی زندگی کا خواہاں تھا۔ اسی دور میں ترقی پسندی کا نعرہ لگاتے ہوئے کچھ گروہوں نے بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کے حق میں بھی آوازیں بلند کیں۔
Published: undefined
بچوں سے جنسی رغبت رکھنے والے کچھ افراد 'فوسٹر فاردرز‘ کے روپ میں برآمد ہوئے اور یتیم اور بے سہارا بچوں کو ان کے سپرد کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس ضمن میں کنٹلر پراجیکٹ نے اہم کردار ادا کیا۔
Published: undefined
اس نام نہاد جنسی آزادی کی بھینٹ چڑھائے جانے والے چالیس سالہ مارکو کا کہنا ہے، ''ہماری زندگیاں تباہ ہو گئی ہیں‘‘۔ مارکو اس دور میں بچے تھے اور صرف نو برس کے تھے، جب انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ کئی برسوں تک ایک 'فوسٹر فادر‘ کے ساتھ رہے۔ کربناک بات یہ ہے کہ تب برلن میں بچوں کی فلاح و بہبود کی اتھارٹی نے مارکو اور دیگر کئی بچوں کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کو نظر انداز کر دیا تھا۔
Published: undefined
مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ایک فوسٹر فادر فرٹز ایچ کے ساتھ رہنے والے سوین کا کہنا ہے، ''ہم اسے کبھی نہیں بھول پائیں گے‘‘۔ مارکو اور سوین دونوں ہی اپنے پچپن کے جنسی تشدد سے عبارت ان یادوں کو کبھی بھلا نہیں پائیں گے وہ انہیں اپنے ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں سخت نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوئے اور زندگی میں کچھ نہ کر سکے۔ اب بھی یہ دونوں ریاستی امداد پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
ساٹھ کی دہائی میں جرمن معاشرے کے کچھ حلقے بچوں کے ساتھ سیکس کو غلط نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ اس عمل کو پراگریسیو رویہ کا آئینہ دار سمجھتے تھے۔ اس مخصوص سوچ کی وکالت کرنے والوں میں جرمن ماہر نفسیات اور سماجی علوم کے پروفیسر ہیلموٹ کنٹلر کا نام سرفہرست ہے۔
Published: undefined
اب واضح ہو چکا ہے کہ وہ بچوں سے جنسی رغبت رکھنے والے افراد کے لیے بچے تلاش کرنے والا ایک ایجنٹ تھا۔ تاہم ایک طویل عرصے تک جرمنی میں وہ ایک صاحب بصیرت‘ اور ایک معروف ماہر جنسیات تصور کیے جاتے رہے۔
Published: undefined
کنٹلر نے ایجوکیشن پر ایک کتاب بھی لکھی تھی، جو عوامی سطح پر کافی مقبول ہوئی تھی۔ وہ ریڈیو اور ٹی وی چینلز کے مختلف پراگراموں میں باقاعدگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتے تھے۔ جنسی آزادی سے متعلق ان کا نظریہ تھا کہ بچے بھی جنسی خواہشات رکھتے ہیں اور انہیں بھی جنسی اظہار کے مواقع ملنے چاہییں۔
Published: undefined
Published: undefined
یونیورسٹی آف ہیلڈس ہائم کے محققین نے ایک رپورٹ شائع کی، جس سے بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ رپورٹ برلن کے ایجوکیشن، فیملی اور یوتھ کے محکمے نے کمیشن کی تھی۔ یہ وہی ادارہ ہے، جس نے مارکو اور سوین کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ ان تحقیقات کا مقصد فوسٹر ہومز میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی چھان بین کرنا تھا۔
Published: undefined
اس رپورٹ سے واضح ہوا ہے کہ اس کیئر ہوم میں مرد اکیلے ہی رہتے تھے، جن میں زیادہ تر معاشرتی سطح پر بااثر شخصیات تھیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت ایک نیٹ ورک کام کر رہا تھا، جس کے روابط اکیڈیمک اداروں سے لے کر اسٹیٹ ویلفیئر کے دفاتر تک تھے۔
Published: undefined
اس تحقیق کے دوران حکومتی دستاویزات کی چھان بین سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہیلموٹ کٹنلر کی زیر پرستی چلنے والے اس پراجیکٹ کو برلن کی اتھارٹی نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس کا دفاع بھی کیا۔ کنٹلر کا بھی کبھی احتساب نہ کیا گیا، جو سن 2008 میں چل بسا تھا۔
Published: undefined
مارکو اور سوین کے لیے یہ تحقیقات اب بے معنی ہیں۔ انہوں نے جو سہنا تھا وہ سہہ چکے اور انہیں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ مجرم قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے جا سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منظم جرم میں شریک ایک مبینہ شخص یوتھ ویلفیئر آفس کا سربراہ تھا، جو ابھی تک حیات ہے لیکن اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined