سماج

ریاست بہار میں بی جے پی مخمصے کا شکار کیوں ہے؟

بھارتی ریاست بہار میں ذات پات کے سروے نے وفاق میں حکمراں جماعت کو مخمصے میں ڈال دیا۔ 1931ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے، جب کم از کم ایک ریاست کی مجموعی آبادی میں پسماندہ طبقات کے تناسب کا پتہ چلے گا۔

ریاست بہار میں بی جے پی مخمصے کا شکار کیوں ہے؟
ریاست بہار میں بی جے پی مخمصے کا شکار کیوں ہے؟ 

بھارت کی حکمراں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سرپرست تنظیم آرایس ایس ذات پات میں بری طرح سے منقسم ہندو معاشرے کو متحد کرنے کے لیے منفی اور مصنوعی انداز اختیار کرتی آ رہی ہے۔ اسی لیے وہ مردم شُماری میں ذاتوں کی علیحدہ گنتی کی سخت مخالفت کرتی ہیں۔ تاہم شمالی ریاست بہار میں جہاں سماجی انصاف کی علمبردار قوتیں بر سراقتدار ہیں، ذات پات پر مبنی ایک جامع سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جو دو مراحل میں مکمل ہو گا۔

Published: undefined

1931ءکے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کم از کم ایک ریاست کی مجموعی آبادی میں پسماندہ طبقات کے تناسب کا پتہ چلے گا۔ یہ ملک کی آزادی کے بعد ایک ایسا قدم ہے، جس کے نتائج بھارت کی سیاست میں ایک بھونچال پیدا کر سکتے ہیں اور ہندو مسلم تفریق کی سیاست کو کمزور کر سکتے ہیں۔

Published: undefined

میرا یہ خیال ہے کہ بھارت میں جس قدر بڑے پیمانے پر معاشی، تعلیمی اور سماجی عدم مساوات ہے نیز ملک کی دولت اور وسائل پر بعض مخصوص پیدائشی مراعات یافتہ طبقات کی عملاً اجارہ داری ہے، وہ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہو۔

Published: undefined

آکسفام کی ایک تازہ رپورٹ بھی اس بات کی گواہ ہے، جس کے مطابق بھارت کی دس فی صد آبادی (جن میں سے زیادہ تر تعلق نام نہاد اعلی ذاتوں سے) 74.3 فی صد ملکی وسائل پر قابض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے سماجی انصاف کی علمبردار قوتیں مردم شماری میں ذاتوں کی علیحدہ گنتی کا پرزور مطالبہ کرتی آرہی ہیں۔ لیکن بھارت کی وفاقی حکومتیں اب تک اس مطالبہ کو مسترد کرتی آئی ہیں۔

Published: undefined

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر قیادت موجودہ وفاقی حکومت اور اس کی سر پرست تنظیم آر ایس ایس تو ایسے کسی مطالبہ کی روادار بھی نہیں ہے، جس نے امسال شروع ہونے والی مردم شماری میں ذات کو شمار کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ تاہم بھارت کی شمالی ریاست بہار جہاں اس وقت سماجی انصاف کی علمبردار قوتوں جنتا دل (متحدہ) اور راشٹریہ جنتا دل کی مخلوط حکومت ہے، نے ذات پات پر مبنی سروے کا جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔

Published: undefined

یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی کسی ریاست میں ایسا سروے بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے، جس کے بارے مبصرین کی رائے ہے کہ شمالی بھارت میں منڈل کی سیاست (سماجی انصاف) کا دوبارہ احیاء ہو گا کیونکہ آزادی کے بعد سے ہندو اعلی ذاتوں کا جن کی آبادی میں حصہ محض دس تا پندرہ فی صد ہے سیاست سے لے کر زندگی کے تمام شعبوں پر اثر رہا ہے اور آر ایس ایس کے ہندوتوا کے نظریہ مزید فروغ پایا ہے۔ چنانچہ بہار حکومت کے اس قدم سے سب سے زیادہ متفکر حکمراں جماعت اور آر ایس ایس نظر آتی ہے۔

Published: undefined

یہ دیکھنے میں آیا کہ جب بھی پسماندہ طبقات میں اس ناانصافی کے خلاف بیداری کی لہر اٹھنا شروع ہوئی ہے اسے دبانے کی غرض سے آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے کوئی نہ کوئی فرقہ وارانہ موضوع اٹھا کر ایک ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب 1990ء میں وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات کے تحت سرکاری ملازمتوں میں دیگر پسماندہ طبقات یا او بی سی کا ریزرویشن کوٹہ دس فی صد سے بڑھا کر 27 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے خلاف بی جے پی رہنما ایل کے ایڈاونی نے ایک رتھ یاترا نکال کر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے بعد اجودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو بھگوان رام کی جائے پیدائش قرار دے کر ایک ایسی جنونی فرقہ وارنہ مہم چلائی گئی تھی کہ پورا ملک فرقہ وارانہ خونریزی سے لرز اٹھا تھا اور باآلاخر مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔

Published: undefined

بہرحال بہار کا یہ سروے اپنی نوعیت کا پہلا سروے ہے، جس کے پہلے مرحلہ کا آغاز 7 جنوری کو ہوا، جو 23جنوری تک چلا۔ دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہو گا اور 30 اپریل کو تکمیل کو پہنچے گا۔ اس کے تحت ہر مکان میں مقیم افراد کے بارے میں انفرادی معلومات یکجا کی جائے گی، جس میں ہر فرد سے اس کی ذات، ذیلی ذات، سماجی و اقتصادی حالت اور تعلیمی حیثیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبہ سے باہر روزگار کے لیے گئے افراد کے بارے میں بھی تفصیلات جمع کی جائیں گی۔ ان تمام تفصیلات کا موازنہ کرنے کے بعد انہیں ڈیجیٹل فارم میں منتقل کیا جائے گا۔ اس سروے میں ریاست کی تقریباً پونے تین کروڑ آبادی کے بارے میں معلومات جمع کی جائیں گی اور ساری تفصیلات سرکاری سطح پر شائع کی جائیں گی۔

Published: undefined

بہار کے وزیراعلی اور جنتادل (متحدہ) کے صدر نتش کمار کے نزدیک یہ سروے ایک تاریخی قدم ہے۔ سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) نے ایک مطالعہ میں انکشاف کیا تھا کہ سن 2014 اور سن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی بنیادی طور پر او بی سی یا دیگر پسماندہ طبقات کی حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ نتیش کمار، جنہوں نے اب قومی اسٹیج پر اپنی نظریں جما رکھی ہیں، یہ سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی سے او بی سی ووٹ بینک کوالگ کرنا ہی اسے قومی سطح پر کمزور کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

Published: undefined

مبصرین کا خیال ہے کہ ذات پات کی یہ مردم شماری منڈل ( سماج) کے دوسرے دور کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ذات کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب ہونے کے بعد یہ یقینی طور پر اقتدار میں زیادہ حصہ داری کے مطالبات کو جنم دے گا اور پھر ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کے سروے کرانے کی مانگ اٹھے گی۔

Published: undefined

ا گر بی جے پی سروے کرانے پر راضی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے اونچی ذات کے ووٹ بینک کو ناراض کر سکتی ہے۔ اگر وہ انکار کرتی ہے تو اسے او بی سی مخالف کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ بلاشبہ بہار سروے نے حکمراں جماعت کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے اور اس کا ہندو مسلم تفریق کا آزمودہ نسخہ بے اثر ہو سکتا ہے۔ نیز ملک کی ذات پات میں بری طرح سے منقسم آبادی کو واحد مذہبی اکائی کے شکل میں پیش کرنے کا آر ایس ایس کا منصوبہ بھی فیل ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined