شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کل جمعرات 4 مئی کو گوا پہنچے، جہاں انہوں نے شام کو چند وسط ایشیائی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں کریں۔
Published: undefined
بھارت ایس سی او کے موجودہ صدر کے طور پر اس میٹنگ کی میزبانی کر رہا ہے۔ جمعہ 5 مئی کو باضابطہ میٹنگ کا آغاز ہو گا اور سہ پہر بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ جس کے بعد بلاول بھٹو میڈیا سے بات کریں گے اور پھر واپس وطن روانہ ہو جائیں گے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا یہ پہلا دورہ ہے، پچھلی مرتبہ اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نئی دہلی آئی تھیں۔
Published: undefined
بھارتی میڈیا مختلف اسباب کی بنا پر بلاول بھٹو کے دورے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ان کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے، جب جوہری طاقت رکھنے والے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار ہیں۔ بلاول بھٹو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مبینہ فرقہ وارانہ سیاست اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا سلوک پر بھی سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔
Published: undefined
سفارتی اور اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کے اس دورے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں برف پگھلنے کی امید بہت کم ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ان کا باہمی دورہ نہیں بلکہ ایس سی او کی میٹنگ میں محض شرکت ہے۔
Published: undefined
اسٹریٹیجک امورکے ماہر، ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں سینیئر فیلو سی راجا موہن کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں کسی بہتری کی امید بہت کم ہے اور باہمی تعلقات میں بامعنی تبدیلی کے لیے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا، جب تک کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان میں داخلی اتفاق رائے پیدا نہ ہو جائے۔
Published: undefined
راجا موہن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں فوج کی اہمیت مسلّم ہے۔ بھارت کے حوالے سے حکمت عملی سمیت دیگر اہم امور پر پالیسی سازی میں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ان کے بقول سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر حالیہ سیاسی حملوں کی وجہ سے فوج اور سویلین رہنماؤں کے درمیان اختلافات گہرے ہو گئے ہیں۔
Published: undefined
خیال رہے کہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ 'سمجھوتہ' کیا۔ حالانکہ جب وہ چھ برس تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے، اس دوران میڈیا یا کسی سیاسی جماعت نے اس تناظر میں ان پر نکتہ چینی نہیں کی تھی۔ اسٹریٹیجک امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس دورے کو اعتماد سازی کی کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
بھارت کے بعض میڈیا ہاؤسز نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے بلاول بھٹو کی بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس کی یکسر تردید کی ہے۔ مائیکل کوگلمین کا خیال ہے کہ چونکہ بھارت میں اگلے برس عام انتخابات ہونے والے ہیں، ایسے میں بھارت اسلام آباد میں کسی کمزور اور غیر مقبول انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنا پسند نہیں کرے گا۔
Published: undefined
بھارت اور بی جے پی کی قیادت والی حکومت جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتی رہی ہے۔ پچھلے ماہ ہی کشمیر میں فوج پر ہونے والے حملے کے لیے، جس میں پانچ فوجی مارے گئے تھے، بھارتی حکام نے اس کی ذمہ داری پاکستان سے سرگرم دہشت گردوں پر عائد کی تھی۔
Published: undefined
مائیکل گوگلمین کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے ایس سی او کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے گوا میٹنگ میں شرکت کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ''ایس سی او کی پاکستان کے لیے اپنی اہمیت ہے۔ چین اور روس اس گروپ کی قیادت کرتے رہے ہیں، ان میں سے ایک اسلام آباد کا قریبی اتحادی اور ایک اہم نیا دوست ہے۔ ایس سی او کے نصف سے زائد اراکین کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے اور پاکستان ان کے ساتھ اپنی تجارت اور روابط کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں اسے بڑی حد تک کامیابی بھی مل رہی ہے۔"
Published: undefined
کوگلمین کے مطابق بعض کثیر فریقی تنظیموں مثلاً سارک، جن میں بھارت اور پاکستان دونوں شامل ہیں، میں نئی دہلی کے طاقت ور ہونے کی وجہ سے اسلام آباد نقصان میں ہے لیکن ایس سی او پر چین کا غلبہ ہے۔ کوگلمین کا کہنا ہے، "پاکستان کے لیے گوا کی میٹنگ میں شرکت اس لیے ناگزیر ہے کیونکہ ایسا نہیں کرنے سے تنظیم کے اندر اپنی حیثیت کمزور پڑ جانے کا خطرہ ہے۔"
Published: undefined
پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی کے مطابق "ایس سی او کی میٹنگ میں بلاول بھٹو زرداری کی شرکت اس لیے ہے کہ پاکستان اس تنظیم کا رکن ہے۔ اس کا پاکستان بھارت تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی امید ہے کہ کوئی برف پگھلے گی۔ لیکن سیاست میں سب ممکن ہے اور کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز