جب سعودی عرب کے دارالحکومت جدہ میں سعودی فرمانروا محمد بن سلمان نے امریکی صدر جو بائیڈن کا استقبال کیا تو، صدر نے کہا کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا موضوع ان کی، ’’ملاقات کے ایجنڈے میں سر فہرست‘‘ ہے۔
Published: undefined
اس کے بعد جو بائیڈن نے اپنے ایک اور بیان میں کہا، ’’جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اشتعال انگیز تھا۔ میں نے تو یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر دوبارہ ایسا کچھ ہوتا ہے تو انہیں نہ صرف اس کا جواب ملے گا، بلکہ اور بھی بہت کچھ ہو گا۔‘‘
Published: undefined
جدہ کے کنگ عبدالعزیز بین الاقوامی ہوائی اڈے پر قدر کم اہم استقبال کے بعد، محمد بن سلمان نے سعودی شاہی محل میں جو بائیڈن کا نہایت گرمجوشی اور دوستانہ ماحول میں خیر مقدم کیا اور یہ تمام مناظر سعودی عرب کے قومی ٹیلی ویژن پر نشر کیے گئے۔ بعد میں سعودی میڈیا پر بائیڈن کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔
Published: undefined
امریکی صدر اور سعودی ولی عہد نے اپنی تین گھنٹے کی ملاقات کے دوران بحیرہ احمر سے لیکر ایران تک علاقائی سلامتی کے اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے کے ساتھ ہی مستقبل میں فائیو جی اور سکس جی جیسی موبائل ٹیکنالوجی کے تعاون پر بھی بات چیت کی۔
Published: undefined
امریکی صدر جو بائیڈن دو دن اسرائیل میں رہنے کے بعد سعودی عرب پہنچے تھے۔ ان کے اس دورے کا مقصد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو’’دوبارہ ترتیب دینے‘‘ کی ایک کوشش تھی، جو خطے میں امریکہ کے سب سے پرانے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
بائیڈن اور سعودی عرب کے حقیقی حکمراں محمد بن سلمان کے مابین گفتگو کے دوران تناؤ اس وقت دیکھنے میں آیا، جب انہوں نے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سعودی عرب کو ایک ’’پاریہ اسٹیٹ‘‘ قرار دیاے ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کے پاس ’’معاشرتی اقدار کے طور پر تبادلے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
بہت سی قیاس آرائیوں کے بعد بائیڈن نے اپنی ملاقات کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ انہوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے موضوع پر بھی بات چیت کی ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی امریکہ میں رہتے ہوئے معروف میڈیا ادارے واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے۔
Published: undefined
انہوں نے سعودی عرب میں بعض پالیسیوں کے حوالے سے محمد بن سلمان پر بھی نکتہ چینی کی تھی اور سن 2018 میں استنبول میں سعودی سفارت خانے کے اندر انہیں قتل کر دیا گیا تھا۔ جدہ میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں بائیڈن نے بتایا کہ ’’انہوں نے بنیادی طور پر یہ اشارہ دیا کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،’’میں نے اس پر کھل کر بغیر کسی جھجک کے بات کی۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پوری طرح سے واضح کر دیا۔‘‘
Published: undefined
جو بائیڈن خود کو انسانی حقوق کا ایک چیمپیئن گردانتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہی گزشتہ برس امریکی انٹیلیجنس کی ان رپورٹس کو جاری کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ہی خاشقجی کے قتل کے فرمان پر دستخط کیے تھے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید نقصان پہنچا تھا۔
Published: undefined
خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیزی نے بائیڈن کی محمد بن سلمان سے ملاقات کے فیصلے کو ’’دل دہلا دینے والا اور مایوس کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اصولوں اور اقدار پر تیل ڈال کر بائیڈن اپنی اخلاقی اتھارٹی کھو دیں گے۔‘‘
Published: undefined
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ خاشقجی بائیڈن کو یہ بتائیں گے کہ محمد بن سلمان کے اگلے شکار کا خون بائیڈن کے ہی ہاتھوں پر ہو گا۔ تاہم بائیڈن نے اپنا دورہ شروع کرنے سے پہلے ایک بڑی تصویر دیکھنے پر زور دیا تھا۔
Published: undefined
ان کا کہنا تھا،’’خاشقجی کے بارے میں میرے خیالات پوری طرح سے مثبت اور واضح رہے ہیں۔ میں انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنے سے کبھی بھی خاموش نہیں رہا۔ تاہم میرے سعودی عرب جانے کی وجہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔‘‘
Published: undefined
ایک ایسا شعبہ جہاں دونوں رہنماؤں نے بتدریج پیش رفت کی، وہ علاقائی سلامتی کا ہے۔ ملاقات کے بعد سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیاکہ دونوں رہنماؤں نے ایران کو ’’جوہری ہتھیار حاصل کرنے‘‘ے باز رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا ہے۔
Published: undefined
سن 2015 میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو کم کرنے کے لیے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس کے تحت جہاں ایران نے جوہری ہتھیار بنانے اور یورینیم کی افزودگی کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا وہیں بدلے میں اس پر عائد پابندیوں کو نرم کرنا تھا۔ تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 ء میں یکطرفہ طور پراس معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
Published: undefined
مشرق وسطیٰ میں تہران اور ریاض بالترتیب شیعہ اور سنی مسلم طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ دونوں ممالک نے سن 2016 میں یمن سے شام تک کئی پراکسی جنگوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے تعلقات تک منقطع کر لیے تھے۔
Published: undefined
مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بائیڈن،’’سعودی عرب کی سلامتی، علاقائی دفاع، اور بیرونی خطرات کے خلاف اپنے عوام اور سرزمین کا دفاع کرنے کے لیے ضروری صلاحیتیں حاصل کرنے میں مملکت کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز