بھارت میں مختلف حکومتی فلاحی اسکیموں سے مستفید ہونے والے افراد کو امدادی رقم براہ راست ان کے بینک کھاتوں میں منتقل کی جاتی ہے۔ ان میں کسانوں کے لیے 'کسان سمّان یوجنا، فصل انشورنس اسکیم‘سوشل سکیورٹی پینشن اسکیم، آفات امدادی رقم، طلبہ کے لیے اسکالرشپ وغیرہ کی رقم شامل ہے۔
Published: undefined
اس وقت بھارت سرکار کی طرف سے مجموعی طور پر 311 اسکیموں کے تحت امدادی رقم ان سے مستفید ہونے والوں کے بینک کھاتوں میں براہ راست منتقل کی جاتی ہے۔ اسے ڈی بی ٹی یا ڈائریکٹ بینیفیٹ ٹرانسفر کہا جاتاہے۔ جن لوگوں کو یہ رقم ملتی ہے وہ بالعموم وقت پر اس کے ملنے کا انتظار بھی کرتے رہتے ہیں۔ بینک اکاؤنٹ میں رقم منتقل ہونے کی اطلاع عام طورپر بینک ایس ایم ایس بھیج کر دیتا ہے یا پھر لوگ کسٹمر سروس سینٹر(سی ایس سی) پر جاکر اپنے بینک اکاؤنٹ کو اپ ڈیٹ بھی کراتے ہیں۔
Published: undefined
حالیہ دنوں میں بالخصوص ریاست بہار کے کئی اضلاع میں متعدد افراد کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں جب کروڑوں روپے منتقل ہونے کی اطلاع ملی تو وہ حیران ہونے کے ساتھ ہی خوش فہمی کا شکار بھی ہوگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ حکومت نے شاید ان کی پریشانیوں کا خیال رکھتے ہوئے فراخ دلی سے کام لیا ہے اور برسوں بعد ان کی امیدیں بہر حال اب پوری ہوگئی ہیں۔ تاہم جب ایسے افراد نے بینک سے رجوع کیا تو ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور بینک نے بھی 'تکنیکی خامیوں‘ کا حوالہ دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا۔
Published: undefined
کٹیہار ضلع کے اعظم نگر بلاک کے پستیا گاوں میں درجہ ششم کے دو طالب علم اسیت کمار اور گروچرن وشواس اپنی چند سو روپے کی اسکالرشپ کی رقم بینک میں پہنچنے کا انتظار کررہے تھے۔ وہ جب اپنا بینک اکاؤنٹ اپ ڈیٹ کرانے بینک پہنچے تو پتا چلا کہ ان کے کھاتے میں تو 900 کروڑ روپے پہلے سے ہی موجود ہے۔اسیت کمار کے اکاؤنٹ میں چھ کروڑ روپے سے زیادہ اور گروچرن کے اکاؤنٹ میں 900 کروڑ روپے کا پتا چلا۔
Published: undefined
ان بچوں کے اکاؤنٹ جس بینک میں ہیں اس کے برانڈ امبیسڈر مشہور اداکار سونو سود ہیں۔ اس معاملے کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ بچوں کے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقم کی موجودگی کا 'انکشاف‘ ایسے وقت ہوا جب بھارت کے محکمہ انکم ٹیکس نے سونو سود کے خلاف مبینہ انکم ٹیکس کی خلاف ورزی کے سلسلے میں ان کے گھر اور دفاتر پر 'سروے‘ کیا تھا۔ محکمہ انکم ٹیکس نے اب چھاپے ماری کی جگہ'سروے‘ کی اصطلاح کا استعمال شروع کیا ہے۔ بعض بھارتی میڈیا نے بچوں کے بینک کھاتوں کے معاملے میں سونو سود کو ملوث کرنے کی کوشش کی۔
Published: undefined
بینک کے عہدیداروں کو جب بچوں کے اکاؤنٹ میں 900 کروڑ روپے سے زیادہ کی موجودگی کا پتا چلا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ انہوں نے صفائی دی کہ دونوں بچوں کے بینک کھاتوں میں اتنی بڑی رقم نہیں ہے۔ ایک کھاتے میں صرف100 روپے تو دوسرے میں 128 روپے ہیں۔ بعض افراد نے تاہم شبہ ظاہر کیا کہ دونوں طلبہ کے بینک اکاؤنٹ سے ہونے والی لین دین کا تعلق سائبر کرائم سے بھی ہوسکتا ہے۔
Published: undefined
سپول کے وپن چوہان کی کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔ وپن قومی دیہی روزگار ضمانت اسکیم کے تحت کام کرتے ہیں۔اس اسکیم کے تحت بھی ملنے والی اجرت براہ راست بینک کھاتے میں منتقل کی جاتی ہے۔ وپن جب شناختی کارڈ، آدھار، لے کر بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے اپنے قریبی بینک کی شاخ میں گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا اکاؤنٹ تو پہلے سے ہی موجود ہے اور اس میں دس کروڑ روپے جمع بھی ہیں۔
Published: undefined
انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے 13 اکتوبر 2016 ء کو بینک اکاؤنٹ کھولا تھا اور فروری 2017 ء میں اس سے کروڑوں روپے کی لین دین ہوچکی ہے۔ جس کے بعد اس اکاؤنٹ کو بعض قانونی ضابطوں کے تحت فریز کردیا گیا ہے۔
Published: undefined
وپن نے جب بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے استعمال ہونے وا لے فارم کو دیکھا تو پتا چلا کہ اس پر ان کا 'آدھار نمبر‘ تو درست ہے لیکن تصویر ان کیبجائے کسی دوسرے شخص کی ہے۔ جب کہ اس پر دستخط اصل دستخط سے ملتی جلتی ہے۔ فون نمبر بھی کسی دوسرے شخص کا ہے۔
Published: undefined
کھگڑیا کے رنجیت داس کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہوگئے۔ان کے اکاؤنٹ میں بھی پانچ لاکھ روپے آئے تھے۔ انہوں نے اتنی بڑی رقم کی اطلاع بینک کو نہیں دی۔ جب ان کے پاس پانچ لاکھ روپے آنے کی بات مشہور ہوئی تو بینک نے نوٹس بھیج کر رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن رنجیت داس نے بڑے سادہ لہجے میں جواب دیا،” یہ پیسے پردھان منتری مودی جی نے بھیجے ہیں، میں اسے واپس نہیں کروں گا۔"
Published: undefined
خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے پچھلے انتخابات کے دوران ایک انتخابی جلسے میں کہا تھا کہ اگر ان کی حکومت قائم ہوئی تو ہر شخص کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپے پہنچ جائیں گے۔ رنجیت داس کا اصرار تھا کہ اس کے اکاؤنٹ میں جو پانچ لاکھ روپے آئے ہیں وہ مذکورہ پندرہ لاکھ روپے کی پہلی قسط ہے۔ رنجیت نے پیسے نکال کر خرچ بھی کردیے۔ معاملہ بالآخر پولیس کے پاس پہنچا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔
Published: undefined
مظفر پور کے کٹرا تھانے کے رہائشی رام بہادر شاہ کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ جب سینیئر سٹیزن پنشن کی رقم چیک کرنے وہ کسٹمر سروس سینٹر پہنچے تواس کے ذمہ دار نے ان کا 'آدھار‘ نمبر دریافت کیا اور اس کی تصدیق کرنے والی مخصوص مشین پر انگوٹھا رکھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے جیسے ہی انگوٹھا رکھا ان کے اکاؤنٹ میں 52 کروڑ روپے کا بیلنس اسکرین پر ظاہر ہوگیا۔
Published: undefined
جب انہوں نے اپنے متعلقہ بینک سے رجوع کیا تو پتا چلا کہ ان کے اکاؤنٹ میں تو صرف دو ہزار روپے ہیں۔ رام بہادر نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ کم از کم کچھ رقم تو انہیں دے ہی دی جائے تاکہ ان کا بڑھاپا اچھی طرح سے کٹ سکے۔
Published: undefined
بانکا کے رہنے والے رکشہ پُلر نتیش کمار کو اپنے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ روپے کی موجودگی کا پتا اس وقت چلا جب گجرات پولیس ان کے گھر پہنچی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ نتیش کے بینک کھاتے میں ایک کروڑ روپے کی رقم آئی ہے اس لیے اس کی انکوائری کی جارہی ہے۔ نتیش کمار تو کسی دوسرے شہر میں رہتے ہیں لیکن ان کے والد اس واقعے سے پریشان ضرور ہوگئے ہیں۔
Published: undefined
اس طرح کے تمام کیسز میں بینک حکام کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل بینکنگ سسٹم میں کوئی بڑی خامی ہے۔ گاؤں میں جو بینک ہیں ان سے کروڑوں روپے کا لین دین کبھی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجودایسے اکاؤنٹ آپریٹ ہوتے رہے ہیں۔ ایک بینک افسر نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر صورت حال یہی رہی تو آئندہ بہت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ بینکنگ سسٹم میں ایسی خامی تشویش ناک ہے۔
Published: undefined
مالیاتی امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ اس خدشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کے بینک کھاتوں کی آڑ میں بڑے سائبر جرائم کیے جارہے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی کے دوران ایسے بینک کھاتوں کا جس بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا گیا تھا اس سے ہر کوئی واقف ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز