بنگلہ دیش کو دنیا میں سب سے بڑا ایسا ملک قرار دیا جاتا ہے، جہاں سے کئی ممالک کو لیبر ورکرز ایکسپورٹ کیے جاتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں دو سال قبل کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے ان کی تعداد سات لاکھ کے قریب تھی۔
Published: undefined
کورونا وبا نے عالمی اقتصادیات پر گہرے اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ اقوام عالم کی معیشت کا پہیہ ابھی بھی سست رفتاری سے چل رہا ہے اور اس کی بحالی میں کچھ اور برس درکار ہیں۔ دوسری جانب ہزاروں بنگلہ دیشی ورکرز اس وقت بیروزگار ہو کر بیٹھے ہیں۔ انہیں وبا کے ساتھ ساتھ موسم کی سنگینی کا بھی سامنا ہے۔
Published: undefined
جنوبی بنگلہ دیش کے ساحلی دلدلی علاقے کے قصبے گوری کھلی کے رہائشی بلال حسین اور ان کے خاندان کو اس وقت موسم کی سنگینی کے ساتھ ساتھ کورونا وبا نے شدید مشکلات کا شکار کر رکھا ہے۔ بلال حسین جیسے بہت سارے لوگوں کو مالی و معاشرتی بحرانی حالات کا سامنا ہے۔ بلال حسین نے سندربن کے جنگلات کو اس لیے خیرباد کہا کہ ان کے علاقے کو کمزور ایکو سسٹم اور منفی ماحولیاتی تبدیلیوں نے متاثر کر رکھا ہے۔
Published: undefined
اس دوران انہیں ملائیشیا میں نوکری ملی تو وہ وہاں چلے گئے لیکن کورونا وبا نے ان کی کمپنی کو گہرے مالی مسائل سے دوچار کر دیا۔ انجام کار انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور وہ رواں برس مارچ میں واپس وطن پہنچ گئے۔ وطن پہنچنے پر سمندری طوفان نے ان کی رہی سہی ہمت توڑ ڈالی اور ایک نئی معاشی پریشانی نے گھیر لیا۔
Published: undefined
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں قائم ایک تھنک ٹینک اووی باشی کارمی اُنیان پروگرام کے بانی شاکر الاسلام کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مہاجرین کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں کیونکہ انہیں نہ صرف اپنے علاقوں سے بیدخلی بلکہ وبا کی وجہ سے نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ شاکر الاسلام کے مطابق بعد میں سمندری طوفان اور سیلابوں نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے اور مجموعی طور پر ان کی پریشانیاں دگنا بلکہ چوگنا ہو چکی ہیں۔
Published: undefined
بنگلہ دیش سینٹر برائے ایڈوانس اسٹڈیز کے سربراہ عتیق الرحمان کا کہنا ہے کہ ایسے پریشان حال افراد کے مسائل کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی، پھر وبا کے بحران کا سامنا اور اب بارشوں سیلابوں نے انہیں غربت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ عتیق الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ ان پریشان حال افراد کی زندگیوں پر مزید ریسرچ کر کے اعداد و شمار جمع کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے تا کہ ان کے مسائل کی شدت کا مناسب احاطہ کیا جا سکے۔
Published: undefined
امریکی جیوفزیکل یونین نے اندازہ لگایا ہے کہ بنگلہ دیش کو جس طرح سمندری طوفانوں کے ساتھ آنے والی بارشوں اور پھر سیلابوں کا سامنا ہے، اس سے سن 2050 تک اس ملک کے تیرہ لاکھ افراد کو بے گھری کا سامنا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
بنگلہ دیش کی ایک بڑی آبادی ساحلی پٹیوں کی مکین ہے اور ان افراد کا آخری سہارا سمندر برد ہونے والے علاقوں سے دوسرے مقامات کی جانب منتقل ہونا رہ گیا ہے۔
Published: undefined
اب ساحلی پٹیوں سے بے گھر ہونے والے افراد کا ٹھکانہ بڑے شہروں کی کچی بستیاں بن کر رہ گئی ہیں کیونکہ انہیں بیروزگاری اور مناسب آمدنی کے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ساتھ وابستہ رہنے والے ایک ریسرچر تسنیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ساحلی علاقوں کے بے گھر افراد کی مالی و معاشرتی مشکلات کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اہم اختراعی اقدام وقت کی ضرورت ہیں اور ان کے ذریعے ہی مالی معاملات میں سدھار ممکن ہو گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز