گزشتہ برس پاکستان میں کم از کم پانچ صحافیوں کو قتل کر دیا گیا۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا یہ مطالبہ کر چکی ہیں کہ انصاف کے مروجہ نظام میں کسی طرح صحافیوں کے خلاف جرائم میں کمی پر توجہ دی جائے لیکن ارباب حل و عقد کو اس پر اب تک خاطر خواہ توجہ دینے کا وقت نہیں ملا ہے۔
Published: undefined
ذرائع ابلاغ اور ان کے کارکنوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی عالمی یوم آزادی صحافت کی مناسبت سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پچھلے بارہ ماہ میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور دھمکیوں کے140 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جو اس سے پچھلے سال کی نسبت63 فیصد زیادہ ہیں۔
Published: undefined
فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان ایشیا میں ایسا پہلا ملک ہے جہاں نہ صرف وفاقی سطح پر بلکہ سندھ میں صوبائی سطح پر بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے قوانین بن چکے ہیں۔ مگر ان قوانین کو بنے دو برس ہو چکے ہیں تاہم ان کے تحت بنائے جانے والے سیفٹی کمیشن کا وجود تاحال صر ف دستاویزات میں ہی دکھائی دیتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت نے سیفٹی کمیشن بنایا ہی نہیں جبکہ سندھ حکومت نے ڈیڑھ سال بعد کمیشن تو بنا دیا مگر اسے نہ تو کوئی وسائل مہیا کیے گئے اور نہ ہی عملہ۔ اقبال خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"ان قوانین کے 2021 میں بننے کے بعد سے اب تک 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں جبکہ 70کے لگ بھگ صحافی مختلف قسم کی دھمکیوں، حملوں، پرتشدد واقعات اور قانونی مقدمات کا سامنا بھی کر چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے ایسے قوانین کا کیا فائدہ، جو ان پر حملوں اور انہیں دی جانے والی دھمکیوں تک کا تدارک نہ کر سکے؟”
Published: undefined
جرنلزم فار ہیومن رائٹس نامی ویب سائٹ کی بانی صحافی سعدیہ مظہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آزادی صحافت پاکستان میں تو ابھی تک ایک خواب سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں پیشہ وارانہ صحافت کوسب سے زیادہ جدوجہد مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کے خلاف کرنا پڑ رہی ہے۔
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ صحافت کے نام پر پروپیگنڈا اور جھوٹ کے خلاف جدوجہد کے دوران انہوں نے جب معلومات تک رسائی کے قانون کے آرٹیکل 19 اے کا استعمال شروع کیا، تو انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں دی جاتی رہیں اور ہراساں کیا جاتا رہا۔
Published: undefined
سعدیہ مظہر کے مطابق،"میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ مثلاً ہمارے علاقے سے منتخب ہونے والے اراکین پارلیمان نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں جا کر اپنے اپنے علاقوں کے لیے کیا کچھ کیا؟ حکومت کی جانب سے نجی اداروں کوکوڑیوں کے عوض زمین پٹے پر کیوں دی جاتی ہے اور مثلاً سندھ حکومت نے اب تک تعلیم پر اور سرکاری اسکولوں میں کتنی رقوم خرچ کیں؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے اپنے موبائل فون پر روزانہ نامعلوم نمبروں سے ایسے پیغامات موصول ہوتے ہیں، جن کا مقصد بطور صحافی مجھے ڈرانا ہے۔"
Published: undefined
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بطور صحافی صرف یہ پوچھا تھا کہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال میں جس زمین پر ساہیوال کلب کی عمارت قائم ہے، آیا وہ زمین سرکاری ہے، تو اس کے جواب میں خود انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ پاکستان کی ایک اور غیر سرکاری تنظیم انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈووکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (ارادہ) کے سربراہ محمدآفتاب عالم نے ورلڈ پریس فریڈم ڈے اور پاکستان میں آزادی صحافت کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کوبتایا کہ صحافیوں کا تحفظ یقینی نہ بنایا گیا تو میڈیا کی آزادی کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا آزاد نہ ہوا تو اظہار رائے کی آزادی بھی معدوم ہوتی جائے گی اور جمہوری اقدار بھی مضبوط کے بجائے کمزور ترہوتی جائیں گی۔
Published: undefined
آفتاب عالم نے بھی یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت صحافیوں کی سلامتی اور تحفظ سے متعلق قانون کے تحت سیفٹی کمیشن قائم کرے اور اسے وسائل بھی مہیا کرے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت اور صوبہ سندھ کی طرح دیگر صوبوں میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔
Published: undefined
پاکستان کی خواتین صحافیوں کی تنظیم ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی بانی اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی سابق جوائنٹ سیکرٹری فوزیہ کلثوم رانا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا،"یوم آزادی صحافت پاکستان میں محض ایک دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ صحافتی تنظیمیں علامتی نعرے تو لگاتی ہیں لیکن صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرتی دکھائی نہیں دیتیں۔"
Published: undefined
فوزیہ رانا کے مطابق،"پاکستان میں صحافتی تنظیمیں چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ اسی لیے صحافیوں کے تحفظ کی تحریک بھی کمزور ہے۔ جہاں معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کو کینیا میں پراسرار حالات میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، وہیں کبھی عاصمہ شیرازی، کبھی منیزے جہانگیر تو کبھی فریحہ ادریس کو ریاستی اداروں یاپھر سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی جانب سے ڈیجیٹل سطح پر ہراساں کیے جانے کا ہر روز سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر صحافی خواتین مخصوص کردار کے تحت اپنے آپ کو ڈھال لیں تو ان کو اس شعبے میں قبولیت ملتی ہے، ورنہ صحافت ان کے لیے انتہائی مشکل پیشہ بن جاتا ہے۔"
Published: undefined
پاکستان میں صحافیوں اور آزادی صحافت پر حملے اتنا بڑا مسئلہ بن چکے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں ملک میں صحافیوں پر حملوں اور ان کے خلاف پرتشدد جرائم کی مذمت کی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز