''مجھے تین ماہ میں شادی کرنا ہے، میری مدد کریں، مجھے بیوی ڈھونڈنا ہے‘‘ یہ وہ درخواست ہے جو یورپ میں پیشہ ورانہ طور پر جوڑے ملانے والی ملائیکہ نیری کو تواتر سے سننے کو ملتی ہے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بہ طور انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، مالیاتی امور کے ماہر اور دیگر پروجیکٹ مینیجرز سبھی ملائیکہ نیری کے پاس اپنا پارٹنر ڈھونڈنے آتے ہیں۔
Published: undefined
بھارت سمیت جنوبی ایشیا بھر میں فیملی، دوستوں یا ہمسایوں کی مدد سے شادی ایک عمومی بات رہی ہے۔ مگر حالیہ کچھ برسوں میں لڑکے لڑکیوں کا آزادنہ ملاپ اور والدین کی اجازت کے بغیر ملنا ملانا اب خاصا قابل قبول سماجی رویہ بن گیا ہے، اسی طرح بین الثقافتی شادیاں بھی اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں رہیں۔
Published: undefined
اسی تناظر میں بھارت میں میچ میکنگ کے شعبے سے جڑے افراد نئے طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں، تاکہ لوگوں کو اپنے رشتے بنانے پر زیادہ اختیار ہو اور اس معاملے میں خاندان اور سماج کا زیادہ دخل نہ ہو۔
Published: undefined
بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں میں میچ میکنگ ایک باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ نیٹ فلِکس پر اسی تناظر میں حال ہی میں ایک سیریز 'انڈین میچ میکنگ‘ بھی نشر کی گئی، جس میں 'سیما آنٹی‘ کو امریکا میں رہنے اور کام کرنے والوں کے رشتے کراتے دکھایا گیا ہے۔
Published: undefined
ممبئی سے تعلق رکھنے والی مگر اب یورپ میں بسنے والی ملائیکہ نیری ریلیشن شپ کنسلٹنٹ کے بہ طور کام کر رہی ہیں۔ وہ بھارت، امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے لیے رشتے ڈھونڈتی ہیں۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے مقابلے میں یورپ سے تعلق رکھنے والے ان کے بھارتی کلائیٹس مختلف ہیں کیوں کہ ان کی رشتوں سے متعلق توقعات مختلف ہیں۔
Published: undefined
نیری کے مطابق ان سے رابطہ کرنے والے زیادہ تر افراد وہ ہیں جو یونیورسٹی تک پہنچے والے اپنے خاندان کے پہلے شخص ہیں یا وہ جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔''یہ ایسے خاندانوں کے افراد ہیں، جن میں صدیوں سے ارینجڈ میریج ہی کا رواج ہے۔ ڈیٹنگ ان کے لیے ایک ٹیبو ہے اور یہ یورپی طرز سے ملنے یا ڈیٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔‘‘
Published: undefined
جرمنی میں مقیم بھارتی شہری ارینجڈ میریج پر کس رائے کے حامل ہیں، یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مختلف سوشل میڈیا گروپس سے رابطہ کیا۔ اس پر کئی افراد نے رائے دی جس میں رشمی بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
رشمی کے شوہر کا خاندان پچھلے ساٹھ برسوں سے جرمنی میں آباد ہے اور جب بیٹے کی شادی کی عمر ہوئی تو انہوں نے بنگالی زبان کے ایک اخبار میں ضرورت رشتہ کا اشتہار چھپوایا۔
Published: undefined
رشمی کی والدہ نے اس اشتہار کے ذریعے اس خاندان سے رابطہ کیا اور یوں رشمی کی شادی ہوئی اور وہ اپنے شوہر کے پاس جرمنی پہنچ گئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان شوہر کے دوستوں کی کہانی بھی مختلف نہیں۔ البتہ کئی بھارتی شہریوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے پارٹنرز آن لائن یا رشتہ کرانے والی ویب سائٹس کی مدد سے تلاش کیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز