ان کے اس سفر سے اُس سے کہیں زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج ہوئی، جتنی کسی غریب ملک کے باشندے کے باعث پورے ایک سال میں ہوتی ہے۔ عوام میں غم و غصہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا، جب میک اپ کوئین کائیلی جینر نے اپنے بوائے فرینڈ ٹریوس اسکاٹ کے ساتھ اپنی ایک تصویر شائع کی، جس میں دو نجی طیارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس پوسٹ پر انہوں نے کیپشن لکھا، ''تم اپنے جیٹ پر سفر کرنا پسند کرو گے یا میرے جہاز پر؟‘‘
Published: undefined
ایٹنگ ڈس آرڈر کیمپینر کارا لیسٹیے نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''یورپ میں آگ لگی ہوئی ہے اور کائیلی جینر پندرہ منٹ کا فاصلہ بھی اپنے جیٹ پر طے کرتی ہیں۔‘‘ ان کی یہ ٹویٹ ان کئی ٹوئٹس میں سے ایک تھی، جو کائیلی کی اس پوسٹ کے خلاف کی گئی تھیں۔ انہوں نے لکھا، ''میں ہر چیز کو ری سائیکل کر سکتی ہوں، سیکنڈ ہینڈ کپڑے خرید سکتی ہوں لیکن اس سب کے باوجود بھی اس جیٹ کی پرواز کے کاربن فٹ پرنٹس کو ختم نہیں کر سکوں گی‘‘۔
Published: undefined
جینر کی اس انسٹاگرام پوسٹ سے ترقی یافتہ ممالک کی نوجوان نسل میں ناراضی کے احساسات جنم لے رہے ہیں، جو اپنے کاربن فٹ پرنٹس کو کم کرنے کے لیے پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس ایک پوسٹ نے دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا باعث بننے والے لوگوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے خوفزدہ ان نسلوں کے درمیان خلاء کو واضح کیا ہے، جو اس نا انصافی پر ناراض ہیں اور اپنے طرز زندگی کے غیر پائیدار طریقوں کو ترک کرنے سے گریزاں ہیں۔
Published: undefined
ایک چوبیس سالہ نوجوان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ''یہی وجہ ہے کہ میں نے بھی تحفظ ماحول کی اپنی تمام تر کوششیں ترک کر دی ہیں‘‘۔ فلائٹ ڈیٹا کے مطابق کائیلی اور ان کے دوست سکاٹ نے دسمبر کے اوائل میں ایک ہی رات اپنے نجی طیاروں پر ایک ہی ایئر پورٹ تک کا سفر الگ الگ کیا اور وہ بھی صرف چند گھنٹوں کے فرق سے۔
Published: undefined
اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ مشہور شخصیات اپنی پرتعیش طرز زندگی کے سبب، جتنی فضائی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں، وہ اس کے عشر عشیر بھی نہیں، جتنی وہ سمندری آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ لگژری کشتیاں، جیسے روسی اولیگارچ رومن ابرامووچ کی 162 میٹر لمبی کشتی، جس پر دو ہیلی پیڈ اور ایک سوئمنگ پول بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ لگژری کشتیاں بڑی عالیشان کوٹھیوں، ہوائی جہازوں اور لیموزین گاڑیوں کے مشترکہ طور پر سی او ٹو اخراج سے بھی زیادہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث ہیں۔
Published: undefined
2021 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ابرامووچ کی کشتی نے 2018ء میں جتنی ضرر رساں گیسوں کا اخراج کیا، وہ 11 ہزار افراد پر مشتمل بحر الکاہل کے جزیرہ ملک تووالو سے کہیں زیادہ تھا۔ اس تحقیق کے ایک شامل محقق بیٹریز باروس کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔ انہوں نے کہا، ''کیونکہ جزیروں پر بسنے والی قوموں کو سمندر کی سطح میں اضافے جیسی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتائج کا زیادہ خطرہ ہے‘‘۔
Published: undefined
ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک میں کئی دہائیوں سے کاربن کے اخراج میں ایک بڑا فرق دیکھنے میں آیا ہے۔ دنیا میں ایک فیصد وہ لوگ، جو سب سے زیادہ پیسہ کماتے ہیں، جن کی سالانہ کمائی تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار یورو کے آس پاس ہے، یہ وہ لوگ ہیں، جو پچھلے تیس سالوں میں کاربن آلودگی میں اضافے کے پانچویں حصے کے لیے ذمہ دار ہیں۔
Published: undefined
محققین نے ان تمام مسائل کے حل پیش کیے ہیں۔ ان کے مطابق ٹیکسوں میں اضافے، قانونی کارروائیوں اور ٹیکس چوری کے خلاف کریک ڈاؤن اس مسئلے کو ممکنہ طور پر کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
Published: undefined
لیکن اس طرح کی پالیسیوں کو، خصوصاﹰ ٹیکس بڑھائے جانے کی پالیسی کو اکثر شدید مخالفت کا سامنا رہتا ہے۔ سویڈن کی لنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اسٹیفن گوسلنگ کے مطابق، ''امیر لوگوں کی طرز زندگی کو حیرت انگیز حمایت حاصل ہوتی ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی ثقافتوں میں پرورش پانے والے لوگ، جو امیروں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں، اکثر اپنی زندگیوں کو محدود کرنے کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
Published: undefined
پالیسی ساز نجی جیٹ طیاروں پر پابندی لگا کر بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو روک سکتے ہیں۔ اس طرح کی پابندی سے پروازوں کی صرف ایک چھوٹی تعداد متاثر ہو گی لیکن ارب پتی لوگوں کو اس بات کی جانب راغب کرے گی کہ انہیں ماحول دوست ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ابتدائی سرمایہ کاری سے ہر ایک کے لیے ماحول دوست ہوائی سفر کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
Published: undefined
2021 میں 'نیچر‘ نامی ایک جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صارفین، سرمایہ کار، رول ماڈلز اور تنظیمی شرکاء موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لوگ آئل کمپنیوں کو قرض دینے والے بینکوں سے اپنی رقم نکال لیں، مقامی کونسل کے اجلاسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے مہم چلائیں یا اپنی کمپنی کی انتظامیہ پر کاروباری پروازوں کو ورچوئل میٹنگز میں بدلنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔
Published: undefined
لیکن اس معاملے کا ایک اور رخ بھی ہے۔ دنیا کے امیر ترین افراد اور کمپنیوں میں سے کچھ نے فاسل فیول کے لیے خطرہ بننے والی پالیسیوں کے خلاف لابینگ میں پیسہ لگایا ہوا ہے۔ اسٹاک ہوم انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے نزاریت کہتے ہیں، ''ایک بڑا مسئلہ امیر ترین افراد کا اثرو رسوخ ہے۔ یہ افراد عطیات کے ذریعے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح عام عوام کے طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز