جنوبی بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزین کیمپوں میں مسلح جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم نے حکام کو چوکنا کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعے کے روز کاکس بازار میں واقع روہنگیا کیمپ میں ہونے والے حملے میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 20 دیگر زخمی ہوگئے۔ یہ گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے پناہ گزین کیمپ میں تشدد کا تازہ ترین واقعہ تھا۔
Published: undefined
پولیس کا کہنا ہے کہ مسلح گروہ نے کیمپ میں واقع ایک مدرسے میں فائرنگ اور چاقو زنی کی، جس سے تین ٹیچر، دو رضاکار اور ایک طالب علم کی موت ہو گئی۔
Published: undefined
بڑے بڑے پناہ گزین کیمپوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم اور اختلافات ستمبر میں اس وقت کھل کر سامنے آگئے تھے جب حقوق انسانی کے لیے سرگرم ایک معروف روہنگیا رہنما کا قتل کر دیا گیا تھا۔
Published: undefined
محب اللہ نامی 48 سالہ روہنگیا رہنما کو کیمپ میں واقع ان کے دفتر میں نامعلوم افراد نے گولی مار کرہلاک کر دیا تھا۔ پیشے سے ٹیچر محب اللہ بے وطن روہنگیاؤں کی اہم آواز سمجھے جاتے تھے۔ حملہ آوروں کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔
Published: undefined
اگست 2017 میں اپنی جان بچانے کے لیے میانمارسے سات لاکھ 30 ہزار سے زائد روہنگیا ہجرت کرکے پڑوسی ملک بنگلہ دیش پہنچنے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک پناہ گزین کیمپوں میں ہونے والے تصادم میں کم از کم 89 روہنگیاؤں کی موت ہوچکی ہے۔
Published: undefined
اس کے علاوہ مبینہ طور پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث 109 پناہ گزین سن 2018 میں بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مبینہ تصادم میں مارے گئے تھے۔
Published: undefined
بہت سے روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کو ایک محفوظ مقام سمجھتے ہیں، جو میانمار کی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے یہا ں پناہ گزین ہیں۔ بودھ مت اکثریتی میانمار کی حکومت روہنگیاوں کو ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی اور ان کی آزادیاں بھی بڑی حد تک محدود کر رکھی ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیح حسینہ نے جون میں کہا تھا کہ روہنگیا " بنگلہ دیش اور خطے کی سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ" بنتے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکن اور کاکس بازار میں سیکورٹی کی صورت حال پر مسلسل نگاہ رکھنے والے نور خان کہتے ہیں کہ کیمپوں کے اندر ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں میں منشیات کی غیر قانونی تجارت اور اغوا شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں ان کیمپوں پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے کم از کم تین مسلح روہنگیا جرائم پیشہ گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔
Published: undefined
نور خان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”حالانکہ فی الحال یہ تصادم کیمپوں تک ہی محدود ہیں تاہم یہ مستقبل میں باہر بھی پھیل سکتے ہیں۔" انہو ں نے کہا،”یہ مسلح گروہ مقامی اور بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں سے بھی ہتھیار خریدنے کی کوشش کرسکتے ہیں جس سے کاکس بازار میں صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ وہ ان ہتھیاروں کو مقامی بنگلہ دیشی مجرموں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔“
Published: undefined
نور خان نے تاہم زور دے کر کہا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا ایک بہت چھوٹا سا گروپ ہی تصادم کے ان واقعات میں ملوث ہے جن کا ماضی میں مجرمانہ ریکارڈ رہا ہے۔
Published: undefined
گوکہ فی الحال ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ روہنگیا پناہ گزین دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں یا بنگلہ دیشی یا غیرملکی شدت پسند مذہبی گروپوں سے ان کی کوئی وابستگی ہے، تاہم بعض تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ مستقبل میں صورت حال بدل سکتی ہے۔
Published: undefined
جنوب ایشیا امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”بد قسمتی سے جنوبی ایشیا میں پناہ گزینوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ یہ الزام پاکستان میں افغان پناہ گزینوں پر عائد کیے گئے تھے اور بھارت میں مسلم پناہ گزینوں کو سیکورٹی کے لیے خطرے کے طورپر دیکھا جا تا ہے۔"
Published: undefined
کوگلمین کا خیال ہے کہ میانمار فوج کے ہاتھوں ظلم اور جبر کا شکار ہونے والے بعض روہنگیا پناہ گزینوں میں شدت پسندی پیدا ہوسکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت معمولی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر روہنگیا پناہ گزینوں کو اور بالخصوص بنگلہ دیش میں رہنے والوں کو دہشت گردی کا منصوبہ بنانے کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کا وجود بچائے رکھنے کی فکر کہیں زیادہ ہے۔
Published: undefined
روہنگیا پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے سرگرم ایک رضاکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے کہا،”پناہ گزین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی ایک بھی غلط حرکت بنگلہ دیش میں ان کے محفوظ قیام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا،”مجھے کاکس بازار میں پناہ گزینوں کی ایسی کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکے کہ انہیں دہشت گردی میں کسی طرح کی دلچسپی ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ وہ بنگلہ دیش اور خطے کی سکیورٹی کے لیے کسی طرح کا خطرہ بن سکتے ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز