کیا ڈیٹنگ ایپس پرعورتوں کا شناخت ظاہر کرنا اس قدر خطرناک ہے کہ ان کی ذاتی زندگی میں شدید پریشانی پیدا ہو سکتی ہے؟ کیا ان کی ڈیجیٹل سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے؟ کیا پاکستانی مرد اس حد تک ناقابل اعتبار ہیں کہ ڈیٹنگ ایپس پرعورتیں اپنی شناخت ظاہر نہیں کر سکتیں؟ یہ اور ایسے کئی سوال 40 سالہ عمیمہ اور پاکستان میں بسنے والی خواتین کے ذہنوں میں گردش کرتے ہیں۔
Published: undefined
عمیمہ جنہوں نے شادی کی نیت سے رشتے کے روایتی طریقوں سے تنگ آکر ایک دوست سے مشورہ کیا اور اسی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک ''ہلال ڈیٹنگ ایپ‘‘ پر پروفائل بنا ڈالی۔ 'مزمیچ‘ مسلمانوں کے لیے بنائی گئی ایک موبائل ڈیٹنگ ایپ ہے جس پر کوئی بھی اپنے لیے جیون ساتھی کا انتخاب کرنے کے لیے مختلف لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے
Published: undefined
عمیمہ نے مزمیچ کو دوسری ڈیٹنگ ایپس کی طرح ہی پایا۔ چونکہ وہ ایک طویل عرصے سے بوریت دور کرنے کے لیے ان ایپس کا استعمال کر رہی تھیں۔ تاہم 'ڈیٹنگ‘ سے متعلق پاکستانی معاشرے کی قدامت پسندانہ سوچ کے باعث انہوں نے ٹنڈر، سکاؤٹ اور بمبل جیسی ایپس پر اپنی شناخت کبھی ظاہر نہیں کی۔
Published: undefined
عمیمہ اس بات سے بھی خوف زدہ تھیں کہ شناخت ظاہر کرنے پر ان کے بارے میں منفی رائے قائم کی جائے گی۔ پاکستان میں عموماﹰ مرد کھلم کھلا ان ایپس کا استعمال کرتے ہیں لیکن اگر کوئی خاتون ان ایپس پر نظر آجائے تو ان کی کردار کشی کرنے میں کوئی پیچھے نہیں رہتا۔
Published: undefined
اسی بات کے پیش نظرعمیمہ نے مزمیچ پر بھی اپنی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا۔ ایک ہفتے میں مختلف مردوں سے بات کر کے عمیمہ کو اندازہ ہوا کہ مزمیچ پر مرد حضرات شادی کے معاملے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اس ایپ پر اکثر مردوں کی رائے یہ تھی کہ پہلے وہ خاتون کو گرل فرینڈ بنا کر ہر طرح سے ’پرکھیں‘ گے اور اس کے بعد ہی شادی کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں گے۔
Published: undefined
اسی کشمکش میں ایک ہم عمر مرد سے عمیمہ کی بات ہوئی اور وہ انہیں مناسب بندہ لگا۔ بات کچھ آگے بڑھی تو شدید اسرار پر عمیمہ نے اپنی تصویر بھیج دی۔ لیکن اس کے بعد ان حضرت نے عمیمہ کو مس میچ کر دیا۔ چند دن بعد عمیمہ کے ساتھ دوبارہ ایسا ہی ایک اور واقع پیش آیا لیکن اس بار بات صرف 'مس میچ‘ کرنے تک ہی نہیں رہی۔ اس بار انہیں تصویر شئیر کرنا بہت مہنگا پڑ گیا۔
Published: undefined
اگلے ہی دن عمیمہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر ایڈ ریکویسٹس کا تانتا بندھ گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر تقریباﹰ ایک سو سے زائد مرد انہیں فیس بک پرایڈ کرنے لگے۔ ساتھ ہی ان کا ان باکس مختلف قسم کے پیغامات سے بھر گیا۔
Published: undefined
ہر سیکنڈ پر ایڈ ریکویسٹ کی بیپ اور اتنے سارے میسجز نے عمیمہ کی زندگی اجیرن کر دی۔ پانچ دن شدید اذیت میں گزارنے کے بعد عمیمہ نے پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) سے رابطہ کیا اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔
Published: undefined
اس ادارے کے مطابق عمیمہ کی فیس بک پروفائل کا لنک کسی ایسی جگہ پر ڈال دیا گیا ہے جہاں بے شمار لوگوں کو اس تک رسائی حاصل ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں فیس بک پر پبلک فرینڈ ریکویسٹ کے آپشن کو بند کر دینا چاہیے۔ عمیمہ کو اس مشورے پر عمل کرنا پڑا تاکہ وہ سکون کا سانس لے سکیں۔
Published: undefined
اس واقعے کے دو ماہ گزر جانے کے بعد بھی کچھ حضرات اب تک عمیمہ کو میسجز بھیجتے ہیں۔ اس ایک واقعے نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اگر ڈیٹنگ ایپ پر شناخت ظاہر کرنا ایک عورت کی ذاتی زندگی کو اتنا متاثر کر سکتا ہے تو عام زندگی میں ایسے مردوں سے شادی کے ارادے سے ملنا کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟
Published: undefined
کیا یہ زیادہ بہتر ہے کہ خواتین ڈیٹنگ ایپس یا سماجی رابطوں کی ایپس پر صرف جعلی شناخت ظاہر کریں؟ کیا پھولوں کی تصاویر یا دانشوروں کے اقوال لگانا زیادہ بہتر رہے گا؟ یا زندگی کا ساتھی تلاش کرنے کے لیے خواتین کے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ چائے کی ٹرے سجا کر لوگوں کے سامنے پیش ہوتی رہیں؟
Published: undefined
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو اورقومی آواز کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز