''تمہاری ماں نے تمہارا اسقاط کیوں نہیں کرایا؟‘‘ یہ وہ سوال تھا، جو غصے سے بھرے ایک راہگیر نے ماحولیاتی تحفظ کے ُان کارکنوں سے چلاتے ہوئے پوچھا، جو ایک حالیہ احتجاج کے دوران برلن کی مصروف ترین گلی فرینکفرٹر ایلی کو بند کیے ہوئے تھے۔ یہ لفظی تبادلہ جرمنی میں ُاس بڑھتی ہوئی تقسیم کو واضح کرتا ہے، جو ( لیٹسٹے گیناراٹشیون) یا ''لاسٹ جنریشن‘‘ یا آخری نسل جیسی تنظیموں کی طرف سے سول نافرمانی کے پہلے سے زیادہ نمایاں اظہار کے طریقے اپنانے پر پائی جاتی ہے۔
Published: undefined
اس حوالے سے ُان لوگ کے درمیان ایک خلیج بڑھ رہی ہے جو کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت اپنے مستقبل کے لیے لڑیں گے، اور دوسری طرف وہ ہیں جن کے خیال میں توجہ حاصل کرنے کے لیے کیے جانے والے بہت سے حربے جرائم کی حد عبور کر چکے ہیں۔
Published: undefined
جرمن وزیر داخلہ نینسی فئیزر نے کا کہنا ہے، ''اس وقت جائز احتجاج کی ہر حد پار ہو جاتی ہے،جب جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اس سب کا جمہوری بحث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجرموں کے خلاف جلد اور مستقل طور پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔‘‘
Published: undefined
فئیزر گزشتہ ہفتے ایک واقعے کا حوالہ دے رہے تھے جس میں لاسٹ جنریشن کے کارکنوں پر دارالحکومت کی ایک سڑک کو بلاک کرنے کا الزام لگایا گیا تھا جسے ہنگامی امداد کے اولین کارکنوں کو استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ تاہم اس سڑک کی بندش کی وجہ سے اسپیشل آپریشنز کی گاڑی کو جائے حادثہ تک پہنچنے میں کئی منٹ زیادہ لگے۔
Published: undefined
یہ امدادی کارکن جس جگہ پہنچنا چاہتے تھے وہاں حادثے کا شکار ہونے والی ایک بائیسکل سوار کی بعد میں موت ہو گئی تھی، کچھ لوگوں کے خیال میں طبی امداد میں تاخیر اس عورت کی موت کی ذمہ دار تھی جبکہ چند دوسرے لوگوں نے سوال اٹھایا کہ کیا اس کے لیے صرف احتجاجی کارکنوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اس ہفتے برلن کی ایمرجنسی سروسز نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ احتجاج کی وجہ سے ہونے والی ٹریفک جام نے ایک خاتون کی جان لے لی۔ کچھ سیاست دانوں نے اس سانحے کو سول نافرمانی کی ایسی کارروائیوں کے خلاف مزید سخت سزاؤں والے قوانین تشکیل دینے کی وجہ قرار دیا ہے۔
Published: undefined
لاسٹ جنریشن نے میڈیا میں زیادہ پزیرائی کے لیے پہلے کے مقابلے میں اب اپنےاحتجاج کو زیادہ واضع کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ صرف 2022ء میں اس گروپ کے اراکین نے جرمنی بھر میں درجنوں بڑی شاہراہوں اور گزرگاہوں کے ساتھ ساتھ بڑے ہوائی اڈوں کے رن ویز کو بلاک کر دیا۔ انہوں نے قطر کے ساتھ توانائی کے معاہدے کی مخالفت میں وزارت اقتصادیات کی عمارت میں توڑ پھوڑ کی اور خود کو تیل کی پائپ لائنوں سے چپکا دیا ہے۔ انہوں نے میونخ، فرینکفرٹ، پوٹسڈیم اور برلن کے عجائب گھروں میں مشہور فن پاروں پر کھانا پینے کی اشیا ء بھی پھینکیں۔
Published: undefined
اگرچہ موٹے شیشوں کے پیچھے محفوظ ہونے کی وجہ سے ان فن پاروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن ان اقدامات نے جرمنی میں ایک گرما گرم بحث چھیڑ دی کہ آیا ماحول دوست کارکنوں کی طرف سے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے آلودگی پھیلانے والوں کی بجائے ثقافت پر حملہ کرنا درست ہے؟
Published: undefined
فری برگ یونیورسٹی میں احتجاجی تحریکوں کی ماہر لینا ہربرز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مظاہرین کی طرف سے منظور شدہ احتجاج کی بجائے زیادہ سخت کارروائیوں کی حمایت کی جا رہی ہے کیونکہ بعد کی دہائیوں میں ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ تبدیلی نہیں لائی گئی۔
Published: undefined
ہربرز نے کہا کہ احتجاجی تحریک کی بدلتی ہوئی نوعیت ان کے مشن کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ''کارکن اب زیادہ زور سے سائنسی طور پر تسلیم شدہ ڈرامائی صورتحال کی نشاندہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں تیزی سے تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
Published: undefined
احتجاج کی یہ نئی شکلیں حزب اختلاف کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور اس کی باویرین اتحادی کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کے سیاست دانوں کے خلاف استعمال کی گئی ہیں۔ اسی وجہ سے ان جماعتوں کے قدامت پسند قانون ساز چاہتے ہیں کہ لاسٹ جنریشن جیسی تنظیموں کے احتجاجی کارکنوں کے خلاف سول نافرمانی کے لیے مجرمانہ سزاؤں میں اضافہ کیا جائے۔
Published: undefined
ان سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ سول نافرمانی کے الزامات پر صرف جرمانے کی سزا نہیں دی جانے چاہیے بلکہ جیل کی سزائیں سنائی جانی چاہییں۔ تاہم لینا ہربرز جیسے ماہرین کا کہنا ہےکہ قدامت پسند قانون سازوں کی طرف سے اس نوعیت کے مطالبات احتجاج کو ''غیر قانونی قرار دینے کی حکمت عملی‘‘ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین کے مطالبات پر کان دھرنے کی بجائے انہیں غیر قانونی قرار دے کر یہ سیاستدان ان کے مطالبات پر عمل کرنے سے بچنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
تاہم جرمن حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں لاسٹ جنریشن کے طریقہ احتجاج پر تو تنقید کرتی ہیں، لیکن وہ ان کے اقدامت پر پر سزاؤں میں اضافے کی قائل نہیں۔ حکمران اتحاد کے سیاسیتدانوں کا کہنا ہے کہ جرمن قانون میں سول نافرمانی کے اقدامات سے نمٹنے کے لیے کافی کچھ موجود ہے۔ تاہم یہ سیاستدان ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کے سائنسی طور پر ثابت ہو جانے کے باوجود لاسٹ جنریشن جیسے ماحولیاتی کارکنوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے بیٹھنھے پر بھی تیار نہیں ۔
Published: undefined
لاسٹ جنریشن نے حال ہی میں حکومت کو ایک الٹی میٹم جاری کیا کہ وہ زیادہ سستی پبلک ٹرانسپورٹ اور قومی شاہراؤں پر رفتار کی حد متعارف کرانے جیسے زہریلے اخراج کم کرنے کے آسان اور عام فہم طریقوں پر بحث میں حصہ لے، یا پھر کارکنان مظاہرے کرکے راستہ روکیں گے۔
Published: undefined
تاہم یہ نوجوان مظاہرین احتجاج کے خلاف سزائیں سخت کرنے کے مطالبات کے بارے میں فکر مند دکھائی نہیں دیتے۔ صرف برلن میں ریاستی استغاثہ نے اکتوبر کے آخر میں کہا تھا کہ ( لیٹسٹے گیناراٹشیون) یا لاسٹ جنریشن کے تقریباً 730 ارکان کو اس سال اب تک مجرمانہ الزامات یا جرمانے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کی ترجمان کارلا ہنرِکس نے ٹویٹر پر کہا کہ پالیسی سازوں کے لیے دستیاب معلومات کی نہیں ہے، بلکہ اس سے نتائج اخذ کرنے کے لیے ہمت کی کمی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز