کابل پر طالبان کے قبضے سے پہلے نیلم (نام حفاظتی وجوہات کی بنا پر تبدیل کیا گیا ہے) کی زندگی بہت مسرور اور مصروف تھی۔ وہ افغانستان کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھیں اور شدت پسندی، خصوصاً طالبان کے خلاف بہت زیادہ کھل کر بات کرتی تھیں۔ اس ضمن میں مختلف میڈیا کے اداروں کو انٹرویوز بھی دیتی رہتی تھیں، جن میں کئی بین الاقوامی نشریاتی ادارے بھی شامل ہیں۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے نیلم خوف کا شکار ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ طالبان انہیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک سابق افغان حکومتی اہلکار نے (جو اب استنبول میں ہیں) انہیں فون کرکے کہا ہے کہ طالبان کی 'ہٹ لسٹ‘ پر ان کا نام بھی ہے۔ نيلم اس وقت کابل ميں ہيں۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
نیلم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال نے ان سے ان کی زندگی ایک جھٹکے میں چھین لی ہے۔ ''جو کچھ بھی ہوا اس پر یقین نہیں آتا۔ میں اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتی، ايسا کبھی نہیں چاہتی تھی۔ تاہم اس وقت اپنے بچوں کے لیے خوف زدہ ہوں اور کوشش ہے کہ انہیں کسی محفوظ ملک میں بھیج دوں اور خود یہیں رکوں۔ میرا کاروبار، پیشہ ورانہ سرگرمیاں، سماجی زندگی، محنت سے کمائی ہوئی دولت اور تحفظ سب کچھ چھن چکا ہے۔‘‘
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
نیلم نے بتایا، ''میں اس وقت اس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہوں کہ مجھ سے ٹھیک سے سوچا بھی نہیں جا رہا۔ میں اس ملک میں رکنا چاہتی ہوں، مگر مجھے فون آتے ہیں کہ تمہارا نام طالبان کی 'ہٹ لسٹ‘ پر ہے، جس سے میں اپنی زندگی اور اپنے خاندان کے ارکان کی زندگی کے لیے خوف زدہ ہوں۔‘‘
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
’’ہمیں اپنے ملک کا مستقبل نہیں معلوم لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جلد ہی افغانستان کے ہر حصے میں جنگ شروع ہو جائے گی۔ جیسا کہ پنج شیر میں مزاحمت شروع ہو چکی ہے، جو خانہ جنگی کی طرف جائے گی۔‘‘
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
نیلم کا خیال ہے کہ ملک میں امنِ عامہ کی صورتِ حال بھی بہت خراب ہونے والی ہے کیونکہ طالبان نے جیلوں میں قید بہت سے جرائم پیشہ افراد کو رہا کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مزید خون خرابے کا خدشہ ہے۔ مزید یہ کہ طالبان کی حکومت کو ابھی تک بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے نیلم نے بتایا کہ اس وقت ان کے ملک میں بہت انتشار پھیلا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ احتجاج بھی ہو رہے ہیں کیونکہ عوام نے 20 سال کی محنت سے جو زندگی بنائی ہے وہ اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور ملک بے یقینی کا شکار ہے۔ طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز سے بھی کوئی تسلی بخش پیغام نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے ملک میں بہت غیر یقینی کی اور پریشان کن صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
نيلم کا کہنا تھا کہ انہیں امید تھی کہ کم از کم 3 سے 6 ماہ کے لیے ایک عبوری حکومت کا قیام تو ہوگا جس میں لوگوں کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ آیا وہ افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں یا کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ''اگر ایسا ہوتا تو صورت حال آج کے مقابلے میں کافی حد تک مختلف ہوتی مگر اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا۔‘‘
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
نیلم شادی شدہ ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی چھوٹی بیٹی ابھی صرف چند ماہ کی ہے۔ نیلم نے بتایا، ''میں نے کبھی اپنا ملک چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا تاہم اب میری خواہش ہے کہ اور کچھ نہیں تو اپنے بچوں کو ہی کسی محفوظ مقام یا ملک بھیج دوں۔ میرا حتمی فیصلہ آنے والے حالات کو دیکھ کر ہی ہوگا کیونکہ ابھی تو سب کچھ افراتفری کا شکار۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Aug 2021, 7:11 AM IST
تصویر @revanth_anumula