یہ واقعہ بھارتی دارالحکومت کے مضافات میں واقع گروگرام کا ہے جہاں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر بھی ہیں۔ بدھ کی رات کو تقریباً دو سو افراد پر مشتمل ہندوؤں کے ایک ہجوم نے مسجد پر اس وقت حملہ کر دیا جب گاؤں کے لوگ عشا کی نماز ادا کر رہے تھے۔
Published: undefined
اطلاعات کے مطابق ہندوؤں کے ہجوم نے مسجد میں گھس کر پہلے توڑ پھوڑ کی اور پھر نمازیوں پر حملہ کر دیا۔ مار پیٹ کرنے کے بعد مسلمانوں کو گاؤں سے نکال دینے کی دھمکی دی گئی۔
Published: undefined
پولیس نے بھورا کلاں گاؤں کی مسجد پر حملے کے معاملے میں ایک کیس درج کیا ہے، تاہم ابھی تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ صوبیدار نذر محمد کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کے مطابق بھورا کلاں گاؤں میں مسلم خاندانوں کے صرف چار گھر ہیں۔
Published: undefined
گروگرام علاقے کے ایک سرگرم صحافی صابر قاسمی نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ اس علاقے کی سخت گیر ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو کھلے میں نماز ادا کرنے سے پہلے ہی روکتی رہی ہیں، تاہم مسجد کے اندر گھس کر مقتدیوں کو نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
Published: undefined
ان کا کہنا تھا، ''اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ ہندوؤں نے کچھ دن پہلے ہی ایک پنچایت کی تھی اور اس میں نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ اب باتوں سے کام نہیں چلنے والا، انہیں ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔''
Published: undefined
ان کا کہنا تھا کہ سخت گیر ہندو تنظیمیں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کافی دنوں سے مہم چلا رہی ہیں اور اب ان کی مساجد و مدارس ان کے نشانے پر ہیں۔ ''جو پورے ملک میں چل رہا ہے، یہ حملہ بھی اسی کا حصہ ہے۔''
Published: undefined
صوبیدار نذر محمد کا کہنا ہے کہ اصل میں ہنگامہ بدھ کی صبح اس وقت شروع ہوا، جب مبینہ طور پر راجیش چوہان عرف بابو، انیل بھدوریا، اور سنجے ویاس کی قیادت میں تقریباً 200 لوگوں پر مشتمل ہندوؤں کے ایک ہجوم نے مسجد کا محاصرہ کر لیااور پھر اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے مقامی نمازیوں کو گاؤں سے نکالنے کی دھمکی دی۔
Published: undefined
پولیس حکام کے مطابق نذر محمد نے اپنی شکایت میں کہا: ''رات کے وقت ایک بار پھر، جب ہم مسجد کے اندر نماز پڑھ رہے تھے، ہجوم نے آ کر نمازیوں پر حملہ کر دیا اور پھر مسجد کو باہر سے تالا لگا دیا۔ انہوں نے ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی۔''
Published: undefined
گاؤں کے بعض مسلمانوں نے پولیس کو اطلاع دی تاہم اس کے پہنچنے تک ملزمان وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔ اطلاعات کے مطابق ہندوؤں کے ہجوم نے مسجد میں رکھے قرآن کے نسخوں اور دیگر مذہبی کتابوں کو پھاڑ دیا اور باقی دیگر سامان لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
Published: undefined
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے جائے واردات سے ایک موبائل فون برآمد کیا ہے جو حملہ آور ہجوم میں شامل کسی شخص کا ہو سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ نذر محمد کی شکایت پرراجیش چوہان، انیل بھدوریا، سنجے ویاس اور کئی دیگر کے خلاف بلاس پور پولس اسٹیشن میں فسادات، مذہبی جھگڑے کی کوشش کرنے اور غیر قانونی اجتماع کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
Published: undefined
سینیئر پولیس انسپکٹر گجیندر سنگھ کا کہنا تھا، ''شکایت کے مطابق ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور ہم حقائق کی تصدیق کر رہے ہیں۔ قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔''
Published: undefined
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ ریاست ہریانہ یا گروگرام میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات کئی بار پیش آ چکے ہیں۔ گزشتہ برس اسی علاقے میں ہندو تنظیموں نے مقررہ میدان کے اندر جمعے کی نماز ادا کرنے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا تھا۔
Published: undefined
کئی ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاج کو پولیس نے حل کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم ہندو تنظیموں نے ماننے سے انکار کر دیا اور اس طرح کئی علاقوں میں مسلمانوں نے نماز پڑھنا بند کر دی تھی۔
Published: undefined
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف اب اس طرح کا رویہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ چند روز پہلے ہی کی بات ہے، دارالحکومت دہلی میں منعقدہ ہندوؤں کے جلسے میں مسلم مخالف اور انتہائی منافرت آمیز تقریریں کی گئی تھیں۔ اس جلسہ عام میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان پرویش سنگھ ورما نے مسلمانوں کا مکمل سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی اور وہاں موجود لوگوں سے اس کا حلف بھی لیاتھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز