بھارتی میڈیا کے مطابق مودی حکومت نے صحافیوں کی ایکریڈیٹیشن کے حوالے سے ایک نئی اور سخت پالیسی بنائی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی صحافی کا رویہ بھارت کی خود مختاری اور سالمیت کے منافی ہو یا اس کی تحریروں سے سکیورٹی، دیگر ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، اخلاقیات یا شائستگی کو نقصان پہنچتا ہو، یا وہ توہین عدالت، کسی کی توہین یا جرم کو بھڑکانے کا سبب بنتی ہوں، توایسے صحافی ایکریڈیٹیشن سے محروم کر دیا جائے گا ۔
Published: undefined
حکومت نے دس ایسے نکات بتائے ہیں، جن کی بنیاد پر صحافیوں کی ایکریڈیٹیشن معطل کی جاسکتی ہے۔ ان میں کسی صحافی پر ''سنگین قابل سزا جرم‘‘ کا الزام عائد کیا جانا بھی شامل ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا وزیٹنگ کارڈز وغیرہ پر 'بھارتی حکومت سے تسلیم شدہ‘ لکھنا بھی ممنوع ہو گا۔ ماضی میں کسی صحافی کی ایکریڈیٹیشن کے وقت ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی جاتی تھی۔
Published: undefined
ایکریڈیٹڈ صحافیوں کو وفاقی حکومت کے تقریباً تمام سرکاری محکموں اور دفاتر تک آسانی سے رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کارڈ کی بدولت انہیں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ بھارتی صدر اور وزیر اعظم کے بعض پروگرامو ں میں شرکت کے لیے بھی یہ 'پریس کارڈ‘ ضروری ہوتا ہے۔ اسے عرف عام میں 'پی آئی بی کارڈ‘ کہا جاتا ہے۔
Published: undefined
صحافیوں کی تنظیموں نے پی آئی بی کارڈ کے لیے نئے ضابطوں کے اعلان پر سخت تنقید کی ہے اور حکومتی طریقہ کار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے سیکرٹری سنجے کپور نے کہاکہ یہ ایک غیر معمولی فیصلہ ہے اور حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے قبل صحافیوں کی کسی تنظیم سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔
Published: undefined
سنجے کپور نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا، ''کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ مثلاً کسی کی ایکریڈیٹیشن کیسے ختم کی جائے گی۔ اگر ختم کر دی گئی، تو اس کی کوئی سنوائی بھی ہو گی یا نہیں اور اگر ہو گی، تو کہاں ہو گی؟ کیا کسی عدالت میں یا پھر حکومت کی کوئی کمیٹی اس کی سماعت کرے گی۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ قوم مخالف یا ملک دشمنی کے تعین کا ضابطہ کیا ہو گا؟‘‘
Published: undefined
جریدے 'ہارڈ نیوز‘ کے ایڈیٹر سنجے کپور کا خیال ہے کہ ان نئے ضابطوں کا اصل مقصد میڈیا پر کنٹرول کرنا ہے، ''حکومت ہر اس چیز پر کنٹرول چاہتی ہے، جس سے اس کے امیج کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ یہ دراصل پریس اور میڈیا کی آزادی کے خلاف ہے۔‘‘
Published: undefined
بھارتی صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑا بھی سنجے کپور کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دراصل حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے صحافیوں کو الگ تھلگ کر دینے کی کوشش ہے۔
Published: undefined
اوما کانت لکھیڑا نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''آخر یہ کون طے کرے گا کہ کون سی خبر قومی مفاد میں ہے یا نہیں؟ جو پالیسی بنائی جا رہی ہے، اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ لوگوں کے سروں پر ڈنڈا لٹکتا رہے۔ آپ حکومت کے موقف کوتسلیم کیجیے، ورنہ اپنی ایکریڈیٹیشن سے ہاتھ دھو لیجیے۔‘‘
Published: undefined
کسی صحافی کو پی آئی بی کارڈ جاری کرنے سے قبل ایک کمیٹی اس کے جملہ کوائف کا جائزہ لیتی ہے، اس کے بعد پولیس کی خفیہ شاخ اس صحافی سے متعلق رپورٹ دیتی ہے اور کئی مراحل کی تکمیل کے بعد ہی یہ کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ صحافیوں کی تنظیموں نے اس پر بھی اعتراض کیا ہے کہ جو نئی کمیٹی بنائی گئی ہے، اس میں سرکاری عہدیداروں کی تعداد غیر ضروری حد تک بڑھا دی گئی ہے۔
Published: undefined
پی آئی بی ایکریڈیٹڈ صحافیوں کی تنظیم پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر سی کے نائیک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ پہلے کمیٹی میں زیادہ سے زیادہ 12سرکاری عہدیدار ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد بڑھا کر 18 کر دی گئی ہے جب کہ میڈیا اداروں سے وابستہ ارکان کی تعداد 12سے گھٹا کر چھ کر دی گئی ہے۔
Published: undefined
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت کا کہنا تھا کہ میڈیا اداروں کے نمائندے اب اقلیت میں ہو گئے ہیں اور چونکہ ایکریڈیٹیشن کا کوئی بھی فیصلہ اکثریتی رائے سے ہوتا ہے، اس لیے اب حکومت اپنی من مانی کر سکتی ہے۔
Published: undefined
سنجے کپور کہتے ہیں کہ یہ واضح طور پر پریس کی آزادی پر حملہ ہے، ''یوں بھی اس وقت بھارت میں پریس کی آزادی کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ حکومت نے پریس کی آزادی کے حوالے سے اپنے بیانیے گڑھ لیے ہیں۔ اب حکومت ہی طے کرتی ہے کہ پریس فریڈم کیا ہے؟ اس کا پریس کی آزادی کے حوالے سے مسلمہ عالمی اصولوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘
Published: undefined
رپورٹرز وِدآوٹ بارڈرز کے سالانہ پریس فریڈم انڈکس کے مطابق بھارت پریس کی آزادی کی رینکنگ کے لحاظ سے نیپال، سری لنکا اور میانمار (فوجی انقلاب سے قبل) سے بھی نیچے اور پاکستان (145ویں مقام پر) سے کچھ ہی آگے ہے۔ بھارت گزشتہ برس دو درجے مزید نیچے گر کر180ملکوں کی فہرست میں 142ویں پوزیشن پر آ گیا تھا۔ اس انڈکس کے مطابق بھارت دنیا میں صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک مقامات میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
مودی حکومت تاہم اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتی۔ وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے اس رپورٹ کے حوالے سے پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بھارت تمام شہریوں بشمول صحافیوں کی سلامتی اور تحفظ کو 'انتہائی اہمیت‘ دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کا طریقہ کار درست نہیں اور اس میں بنیادی حقائق کا خیال نہیں رکھا گیا۔
Published: undefined
بھارت میں حکومتی پالیسیوں، پروگراموں اور معلومات کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک ترسیل کا کام اطلاعات و نشریات کی وزارت کے ماتحت ادارے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کے ذمے ہے۔ یہ ادارہ روزناموں، ہفت روزہ یا پندرہ روزہ میگزینز، خبر رساں اداروں، غیر ملکی نیوز اداروں، ٹی وی چینلوں، نیوز ایجنسیوں اور بھارتی ٹی وی نیوز چینلوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو ان کے اداروں کی جسامت کی بنیاد پر پی آئی بی کارڈ یا ایکریڈیٹیشن کارڈ جاری کرتا ہے۔
Published: undefined
ایسے میڈیا اداروں کے علاوہ یہ کارڈ ایسے صحافیوں کو بھی جاری کیا جا سکتا ہے، جنہیں کم از کم 15برس تک صحافت کا تجربہ ہو۔ 30 برس سے زیادہ تجربہ رکھنے والے یا 65 برس سے زائد عمر کے صحافیوں کو بھی ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے پی آئی بی کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔
Published: undefined
بھارت میں اس وقت تقریباً ڈھائی ہزار صحافیوں کے پاس یہ کارڈ ہے لیکن ان میں ایک بڑی تعداد مختلف وزارتوں کے ان سرکاری اہلکاروں کی بھی ہے، جو میڈیا سے رابطوں کے شعبوں میں کام کرتے ہیں۔ صحافیوں کی تنظیموں نے پی آئی بی ایکریڈیٹیشن کے حوالے سے حکومت کی نئی پالیسی کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined