سماج

پاکستان: کراچی چڑیا گھر کے جانورعدم توجہ کا شکار ہیں

ایک پاکستانی چڑیا گھر میں ایک نایاب شیر کی موت کے بعد سوشل میڈیا پر ناقدین نے چڑیاگھروں کے مخدوش و خراب حالات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اب بقیہ جانوروں کی صحت کے بارے آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔

پاکستان: کراچی چڑیا گھر کے جانورعدم توجہ کا شکار ہیں
پاکستان: کراچی چڑیا گھر کے جانورعدم توجہ کا شکار ہیں 

رواں برس 24 نومبر کو ایک نایاب سفید شیر پاکستانی شہر کراچی کے چڑیا گھر میں تپِ دق کی بیماری سے ہلاک ہو گیا۔ اس شیر کی ہلاکت کے بعد جانوروں کے حقوق کے پاکستانی کارکنوں کا کہنا ہے کہ شیر کی ہلاکت چڑیا گھر کے ملازمین کی غفلت کا نتیجہ ہے۔

Published: undefined

اس تنقید کے بعد کراچی چڑیا گھر کے نگران ادارے کراچی میونسپل کارپوریشن نے چڑیا گھر کے انچارج کو نوکری سے برخاست کر دیا۔

Published: undefined

کراچی کا چڑیا گھر مخدوش حالات میں

پاکستان کے مالیاتی مرکز کراچی کے چڑیا گھر کے ناقص انتظامی حالات کے بارے میں سرگرم افراد کی منفی تنقید سفید شیر کی موت سے ایک ہفتہ قبل سوشل میڈیا پر آنا شروع ہو گئی تھی۔ پاکستان میں بین الاقوامی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) کے سینیئر ڈائریکٹر رب نواز نے شیر کی موت کو انتظامیہ کی غفلت کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایک قیمتی جانور کو انتہائی غیر صحت مند حالات میں رکھا گیا تھا۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کو بیمار شیر کو قرنطینہ میں رکھنا چاہیے تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے چڑیا گھر کو وسائل کی کمی کا بھی سامنا ہے، اس میں نہ تو جانوروں کا معالج موجود ہے اور نہ ہی عملہ مناسب تربیت کا حامل ہے۔

Published: undefined

کراچی سے تعلق رکھنے والی جانوروں کی حیات کی ماہر اسما گھی والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چڑیا گھر میں جانوروں کی مناسب طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چڑیا گھر کو اخراجات کے لیے سرمایہ بھی فراہم نہیں کیا جاتا اور اس کی وجہ چڑیا گھر کے کُل بجٹ میں سے 70 سے 80 فیصد ملازمین کی تنخواہوں میں نکل جاتا ہے۔ اسما گھی والا نے مزید بتایا کہ چڑیا گھر کا انحصار امداد پر ہے اور انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ نئی بھرتیوں کے سلسلے کو فوری طور پر بند کرے۔

Published: undefined

اسٹاف کم، جانوروں کی خوراک محدود

کراچی کا چڑیا گھر 33 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور پاکستان کے بڑے چڑیا گھروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس میں تربیت یافتہ اسٹاف بھی کم ہے۔ ایک بڑے جانور کے پنجرے یا کمرے کو مناسب انداز میں صاف کرنے میں کم از کم ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے اور موجود ملازمین کو اس کام میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

Published: undefined

چڑیا گھر کو خوراک فراہم کرنے والے ٹھیکیدار امجد محبوب کا کہنا ہے کہ اسے رواں برس فروری سے فراہم کردہ خوراک کی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے رقم کی ادائیگی میں مزید تاخیر پر خوراک فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ اب انتظامیہ نے انہیں بقایا جات ادا کرنے کا وعدہ دیا ہے۔

Published: undefined

عدالت کی مداخلت

جانوروں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں نے اس چڑیا گھر کے بارے میں گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ایک ایسے ہی کارکن اویس اعوان کا کہنا ہے کہ ایک ماہر حیوانات کی کراچی چڑیا گھر میں ضرورت ہے تا کہ جانوروں کے باقاعدہ طبی معائنے کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مقامی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور عدالت کی ہدایت پر قریبی چڑیا گھر اور سفاری پارک میں رکھے گئے چار افریقی ہاتھیوں کا طبی معائنہ کرایا گیا۔

Published: undefined

یہ امر اہم ہے کہ چڑیا گھر کسی مقامی ماہر حیوانات سے معائنہ کرانا چاہتا تھا لیکن عدالت نے غیر ملکی ماہرین کی خدمات کو فوقیت دی۔ ایک غیر ملکی ماہرین کی ٹیم نے پاکستان پہنچ کر ان جانوروں اور خاص طور پر ہاتھیوں کا معائنہ بھی کیا ہے۔

Published: undefined

اس ٹیم میں جرمن دارالحکومت برلن کے لائبنس انسٹیٹیوٹ برائے زُو اور وائلڈ لائف ریسرچ ادارے سے منسلک ماہرین کی ٹیم کے سرکردہ ماہر فرانک گؤرٹس بھی شامل ہیں۔ برلن کی فری یونیورسٹی کے ماہر تھوماس ہیلڈے برانٹ بھی پاکستان پہنچے۔

Published: undefined

اس ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی ہے، اس میں واضح کیا کہ سفاری پارک اور چڑیا گھر کے ہاتھیوں کو شدید کم خوراکی کا سامنا ہے۔ ماہرین نے رپورٹ میں تجویز کیا کہ بہتر میڈیکل چیک اپ اور رہنے کے حالات کو بہتر بنانا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ ناقدین کا تاہم سوال ہے کہ چڑیا گھر کی بہتری کے لیے فنڈ کون فراہم کرے گا اور کہاں سے آئے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined