گزشتہ سال 16 ستمبر کو 22 سالہ جینا مہسا امینی، جو نسل کے اعتبار سے کرد تھیں، ایران کی ''اخلاقی پولیس‘‘ کی زیر حراست ہلاک ہو گئی تھیں۔ مہسا کو مبینہ طور پرغیر مناسب طریقے سے حجاب یا ہیڈ اسکارف پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
Published: undefined
امینی کی موت ایران میں نوجوان خواتین کے جذبات کو اس حد تک بھڑکانے کا سبب بنی تھی کہ انہوں نے کئی دہائیوں میں ایران کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک کی قیادت تک سنبھال لی۔ ان کی تحریک نے وہ شہری بدامنی پھیلائی کہ اس اسلامی جمہوریہ کے حکمرانوں کے لیے ایک بے مثال چیلنج بن گیا۔ حکام نے بہیمانہ کریک ڈاؤن کے ساتھ جوابی کارروائی کی جس میں ہزاروں مظاہرین کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔
Published: undefined
امینی کی موت کے ایک سال بعد بھی ایران میں حکام ہر اُس احتجاج کی علامت کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس سے ان کو خطرہ لاحق ہے کہ وہ ممکنہ طور پر ویسی ہی شدت اختیار کرے گا جو ایک سال قبل پیدا ہوئی تھی۔ خاص طور پر گزشتہ برس احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والوں کے گھر والوں اور لواحقین کی ہر ایک نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
Published: undefined
حالیہ دنوں میں متاثرین کے اہل خانہ کو نشانہ بنایا گیا۔ مہسا کیس پر سراپا احتجاج بنتے ہوئے اپنی جانیں گنوانے والوں کے خاندان کے کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں ماشااللہ کرامی بھی ہیں، محمد مہدی کرامی کے والد، جنہیں زیر حراست رکھنے کے بعد جنوری 2023 ء میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ بزرگ کرامی کو 21 اگست کو حراست میں لیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اطلاع دی ہے کہ پچھلے پانچ مہینوں کے دوران مظاہروں میں اپنے پیاروں کو کھونے والے تقریباً 70 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 5 ستمبر کو امینی کے چچا کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ ایران میں ایک با خبر ذریعے نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ دوران احتجاج ہلاک ہونے والوں کی قبروں پر جمع ہونے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
Published: undefined
اس ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ سکیورٹی فورسز سوگوار خاندانوں کو ایران میں مظاہروں کی بحالی کا ممکنہ محرک سمجھتے ہیں۔ جولائی کے مہینے میں بیس سالہ طالب علم مہر شاد شاہدی نژاد کی قبر پر جمع ہونے والے 8 افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ شاہدی کو اکتوبر 2022 ء میں شہر اراک میں ایک احتجاج کے دوران ہلاک کر دیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں کو 6 سال قید اور 74 کوڑوں کی سزا سنائی گئی تھی۔
Published: undefined
ایرانی حکام ایک طرف تو سوگوار خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن دوسری جانب صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے لیے سخت قید کی سزاؤں کے ساتھ دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ان میں ایک پچھتر سالہ صحافی کیوان سمیمی بھی شامل ہیں جنہیں '' قومی سلامتی کے خلاف سازش‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، کو حال ہی میں رہا کیا گیا۔
Published: undefined
ایلناز محمدی اور نگین باقری، دو نوجوان خواتین صحافیوں کو بھی تین سال کی معطل قید کی سزا سنائی گئی۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک خاتون کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''ایران میں بہت سے سیاسی اور سول کارکنوں کے خلاف نئے کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں اکثر پر حکومت مخالف سرگرمیوں کا الزام لگایا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
تمام تر دھمکیوں کے باوجود سوشل میڈیا کی پوسٹس اور خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی معاشرے میں مزاحمت کا جذبہ اب بھی موجود ہے۔ مظاہرین، خاص طور پر خواتین اور نوجوان اب بھی امینی کی برسی کی یاد میں ہونے والے احتجاجی اجتماعات میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں۔
Published: undefined
سن 2022 کے نومبر سے جنوری 2023ء کے آخر تک مقید رہنے والی، خواتین کے حقوق کی کارکن الہام مودارریسی نے ترکی سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ جیل میں گارا ہوا ان کا وقت انہیں ''مضبوط‘‘ اور پہلے سے ہزار گنا زیادہ لچکدار‘‘ بنانے کا سبب بنا ہے۔
Published: undefined
ایک اور سیاسی قیدی جس نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنا چاہا ، نے اس امر پر زور دیا کہ ایرانی حکام کی طرف سے کریک ڈاؤن دراصل سکیورٹی اپریٹس کی طرف سے سیاسی اور سول کارکنوں سمیت ایرانی معاشرے میں خوف اور تشویش پیدا کرنے کے لیے ''طاقت کا مظاہرہ‘‘ تھا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined