سماج

طلبہ کا رخ امریکا اور برطانیہ کی بجائے جرمنی کی طرف

کورونا وائرس کی نئی قسم سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو انتہائی پیچیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

طلبہ کا رخ امریکا اور برطانیہ  کی بجائے جرمنی کی طرف
طلبہ کا رخ امریکا اور برطانیہ کی بجائے جرمنی کی طرف 

امریکا اور برطانیہ میں کئی غیر ملکی طلبا کو اپنے کمرے خالی کرنے پڑے تھے کیونکہ حکومت وبا کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں تھی۔ اس کے علاوہ کئی طلبہ کو جزوقتی نوکریوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ایک افسوس ناک صورت حال یہ بھی تھی کہ تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں غیر ملکی طلبہ پردیس میں بے یار و مددگار ہو کر رہ گئے کیونکہ ان کے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں رہی اور کھانے کے لیے پیسے تک نہیں بچے تھے۔

Published: undefined

ایسے حالات کی اطلاعات جب ان کے ممالک تک پہنچی تو وہ طلبہ پریشانی کا شکار ہو کر رہ گئے، جو مغربی ملکوں کی درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ سرحدوں کی بندش اور فضائی سفر کا معطل ہونا بھی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ملک سے کسی اور ملک میں تعلیم کا خواب بھی ادھورا ہو کر رہ گیا کیونکہ کلاس روم کی جگہ آن لائن کلاسوں نے لے رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی طلبہ کو معمول کی فیسیں بھی ادا کرنا پڑی ہیں۔

Published: undefined

میشائل گائبل یورپی یونیورسٹیز ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر ہیں۔ اس ایسوسی ایشن کے ساتھ آٹھ سو سے زائد یونیورسٹیاں وابستہ ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے میشائل گائبل کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ رواں برس کے موسم سرما کے سیمیسٹر کے لیے نئے طلبہ کی تعداد خاصی کم ہو سکتی ہے۔ گائبل کے مطابق بنگلہ دیش، تھائی لینڈ یا چین میں بدستور بے یقینی چھائی ہوئی ہے اور یہ داخلے لینے کے لیے بہتر صورت حال نہیں ہے۔

Published: undefined

ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ امریکا اور برطانیہ کو نئے داخلوں میں کمی کی صورت میں اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ نقصان ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ان ملکوں کی اقتصادیات کو کورونا کی وبا سے شدید مسائل کا سامنا ہے۔

Published: undefined

بین الاقوامی طلبہ کو امریکا میں سالانہ فیس کے طور پر پچاس ہزار ڈالر یا اس سے زائد ادا کرنے پڑتے ہیں اور فیسوں کا تناسب برطانیہ کے لیے بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کی برطانیہ اور امریکا کی معیشت میں ایجوکیشن اکانومی کا اہم کردار ہے۔ برطانیہ میں ہر سال پانچ لاکھ کے قریب اسٹوڈنٹس مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے تھے اور ان سے برطانوی خزانے میں اکیس بلین ڈالر جمع ہوتے تھے لیکن رواں برس ایسا نہیں دکھائی دے رہا۔

Published: undefined

اس صورت حال کا احساس بیشتر امریکی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو بھی ہو چکا ہے۔ کرانیکل آف ہائر ایجوکیشن نامی جریدے کے مطابق یونیورسٹیوں میں ملازم تقریباً اڑتالیس ہزار افراد کو جز وقتی یا فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ساری دنیا میں ایجوکیشنل سیکٹر میں ہزاروں ملازمتوں کو ختم کرنے کے اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ برطانیہ میں اس سیکٹر میں تیس ہزار نوکریاں ختم ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں کی صورت حال کے تناظر میں میشائل گائبل کا کہنا ہے کہ یورپی یونیورسٹیوں کو ایسے حالات کا سامنا شاید نہ ہو کیونکہ ان کی سرپرستی حکومتیں کرتی ہیں۔

Published: undefined

گابئل کے مطابق وبا کے دوران بھی یورپی یونیورسٹیاں انٹرنیشنل طلبہ کو راغب کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور امکان ہے کہ یہ اپنا نصاب آن لائن پڑھانے میں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں اور اس مقصد کے لیے اضافی اسٹاف کا بند و بست کرنا ضروری ہو گا۔ گائبل کے خیال میں 'سوشل ڈسٹینسنگ‘ کی وجہ سے ہر کلاس کا حجم چھوٹا رکھنا ہو گا۔ بعض تعلیمی ماہرین کا خیال ہے کہ جرمنی کو بین الاقوامی طلبہ کو اپنے اداروں کی جانب مائل کرنے کا موقع ملا ہے۔

Published: undefined

ویسٹ سکسن یونیورسٹی برائے ایپلائیڈ سائنسز نے تو اعلان کیا ہے کہ اسے انٹرنیشنل طلبہ کا انتہائی حوصلہ بخش ریسپانس ملا ہے۔ امریکا اور برطانیہ ایجوکیشنل سیکٹر پر غلبہ رکھتے ہیں لیکن اب جرمنی اور فرانس بڑی تیزی کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ دس برس قبل جرمنی میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ تھی لیکن سن 2019 میں اس تعداد میں اٹھاون فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔

Published: undefined

یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کا فائدہ بھی جرمنی کو حاصل ہونے کا قوی امکان ہے اور طلبہ کا جرمنی کی جانب واضح جھکاؤ مستقبل میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق چوراسی فیصد انٹرنیشنل طلبہ برطانیہ میں داخلہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس وقت جرمنی طلبہ کا پسندیدہ ملک بنتا دکھائی دے رہا ہے اور اس کے بعد ہالینڈ میں بھی غیر ملکی طلبہ کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined