جرمن دارالحکومت برلن میں قائم وفاقی پارلیمان کی عمارت 'رائش ٹاگ‘ کہلاتی ہے۔ یہی عمارت وفاقی جمہوریہ جرمنی کے 'بنڈس ٹاگ‘ کہلانے والے پارلیمانی ایوان زیریں کا 'گھر‘ بھی ہے۔ کئی سال تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ کے دوران اس عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا اور یہ کافی حد تک تباہ ہو جانے کے علاوہ جل بھی گئی تھی۔
Published: undefined
تاریخی طور پر اس عمارت کو اس لیے 'رائش ٹاگ‘ کہا جاتا ہے کہ وہاں ماضی کی جرمن ریاست (ایمپائر) کے منتخب عوامی نمائندے پارلیمانی اجلاس میں حصہ لیا کرتے تھے۔
Published: undefined
دوسری عالمی جنگ کے آخر مہینوں میں، جب برلن اتحادی ممالک کی فضائی بمباری سے کافی حد تک تباہ ہو چکا تھا، اس پارلیمانی عمارت کے تہہ خانے میں ایک ایسا عبوری لیکن 'محفوظ‘ میٹرنٹی وارڈ قائم کر دیا گیا تھا، جہاں حاملہ جرمن خواتین اپنے بچوں کو جنم دے سکتی تھیں۔ طبی اور انتظامی حوالے سے اس زچہ بچہ وارڈ کا تعلق قریب ہی واقع برلن کے مشہور زمانہ 'شاریٹی‘ ہسپتال سے تھا۔ اسی لیے تین چوتھائی صدی قبل وہاں جنم لینے والے جرمن شہریوں کو 'رائش ٹاگ بےبیز‘ (Reichstag Babies) کہا جاتا ہے۔
Published: undefined
جنگ کے بعد رائش ٹاگ کی عمارت کی مرمت اور تزئین و آرائش کی گئی تھی اور آج یہی عمارت متحدہ جرمنی میں 'وفاقی جمہوری نظام کی علامت‘ ہے۔
Published: undefined
اس عمارت کے تہہ خانے میں 1940ء کی دہائی کے وسط میں بہت سے جرمن بچے پیدا ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر اب تک اپنی اپنی زندگیاں گزار کر انتقال بھی کر چکے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یا بنڈس ٹاگ کے موجودہ اسپیکر کا نام وولفگانگ شوئبلے ہے اور انہوں نے حال ہی میں 75 سال پہلے پیدا ہونے والے ان 'بچوں‘ کو دعوت دی تھی کہ وہ اسی پارلیمانی عمارت میں جمع ہو کر ایک دوسرے سے ملیں۔
Published: undefined
آج اتوار آٹھ ستمبر کو برلن میں رائش ٹاگ کی اس عمارت میں ہونے والی 'آپس کی ملاقات‘ کے لیے ایسے پندرہ 'بچوں‘ نے اپنی شرکت کی تصدیق کر دی ہے۔ آج ان 'بچوں‘ میں سے چند ہفتوں یا مہینوں کے فرق سے ہر کسی کی عمر 75 برس ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
رائش ٹاگ کی طرف سے اس عمارت کے اسی تاریخی پہلو کے حوالے سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''دستیاب لیکن نامکمل تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس پارلیمانی عمارت کے تہہ خانے کو عبوری میٹرنٹی وارڈ کے طور پر کب سے کب تک استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ تاہم یہ بات مصدقہ ہے کہ 'شاریٹی‘ ہسپتال نے اس عمارت کے تہہ خانے میں ایک عبوری زچہ بچہ مرکز کھول رکھا تھا۔ یہاں خاص طور پر ان خواتین کی طبی دیکھ بھال کی جاتی تھی، جو اپنے بچوں کو جنم دینے کے بالکل قریب ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ اسی وارڈ کو نومولود بچوں اور ان کی ماؤں کے لیے خاص طور پر رات کے وقت ایک محفوظ زیر زمین طبی پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined