فروری سن 2022 میں شروع ہونے والا بحران یورپی تھا۔ تاہم روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا سب سے زیادہ نقصان افریقہ کو پہنچا ہے۔ اناج اور دیگر زرعی مصنوعات کی رسد صرف ایک ہی جھٹکے میں کم ہوگئی جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ براعظم افریقہ کے بڑے حصے اب بھی درآمدات پر کتنے منحصر ہیں۔
Published: undefined
اقوام متحدہ کے زراعت سے متعلق عالمی ادارے کی تنزانیہ سے تعلق رکھنے والی ماہر معاشیات سارہ باگو بھنو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نا صرف یوکرین کے تنازعے، بلکہ کورونا وائرس کی وبا نے بھی دکھایا ہے کہ کس طرح غذا کی فراہمی کے ہمارے نظام غریب ترین لوگوں کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
Published: undefined
اس ماہر معاشیات کے مطابق کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی امراض کے نتیجے میں انفرادی گھرانوں پر مالی بوجھ پہلے ہی تیزی سے بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لوگوں کی 60 سے 70 فیصد آمدنی کھانے پر خرچ ہو رہی ہے،''پانچ یا چھ افراد پر مشتمل کنبے کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ وہ کیا کھانے کی سکت رکھتے ہیں اور شاید سستی ہونے کی وجہ سے وہ کم غذائیت والی خوراک پر اکتفا کر لیں گے۔‘‘ ماہرین اس نظام میں فوری اصلاح کی ضرورت پر متفق ہیں۔ اس ضمن میں وہ ایک ایسا طریقہ تجویز کرتے ہیں، جو کسان سے اجناس کے حصول سے لے کر ان کے کھانے کی میز تک پہنچنے کے پورے عمل کو بدل دے گا۔
Published: undefined
ماہر معاشیات سارہ باگو بھنو کے مطابق زیمبیا، ملاوی اور جمہوریہ کانگو سمیت بہت سے افریقی ممالک خوراک برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زرعی پیداوار کے لیے زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے حامل یہ ممالک اپنی ضرورت سے زیادہ پیداوار کے اہل ہیں۔
Published: undefined
کوئی بھی اس خطے پر اناج کے حصول کے لیے مکمل انحصار نہیں کر سکتا کیونکہ یہاں کے زمینی حالات گندم اور روٹی بنانے کے لیے استعمال ہونے والا دیگر عام اناج اگانے کے لیے موافق نہیں ہیں۔تاہم جوار اور اس جیسے اناج کی کثرت کے ساتھ ساتھ یہاں پھلوں اور سبزیوں کی وسیع اقسام بھی اگائی جاتی ہیں۔ کچھ علاقوں میں مویشیوں کی فارمنگ کے زریعے بڑے پیمانے پر گوشت اور دودھ کی مصنوعات تیار کی جا سکتی ہیں۔
Published: undefined
تاہم ایسا کرنے کے لیے کئی رکاوٹوں کو دور کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر کاشتکاری کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنا ضروری ہوگا۔ ماہرین کے مطابق جنوبی افریقہ میں پانی کے ذخائر کو زراعت کے قابل بنانے کے لیے فوری طور پر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: undefined
اسی طرح فی ہیکٹر پیداوار میں بہتری کے لیے مختلف جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضروری ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سرمایہ کاری اور جدید تکنیک کی منتقلی یعنی ڈرپ اریگیشن اور کھادوں کے استعمال کی بھی ضرورت ہے۔
Published: undefined
فصلوں کی کٹائی ایک اور چیلنج ہے اور اس کی وجہ مزدوروں کی کمی ہے۔ کام کی تلاش میں نوجوان تیزی سے شہروں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی مصنوعات کو ہر حال میں صارفین تک پہنچنا چاہیے۔ کامساہ فیلکس ماؤولی گھانا کی ایک زرعی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ کمپنی زرعی اجناس کی ایک بڑی تعداد جن میں شکرقندی سے لے کر ٹماٹر، مرچیں اور دیگر جڑی بوٹیاں یعنی تلسی اور پودینہ وغیرہ شامل ہے، اگاتی ہے۔ ماؤولی کے مطابق ان کی کمپنی خطے کو یہ اجناس فراہم کرنا چاہے گی، لیکن ان کے زیادہ تر گاہک یورپ میں ہیں کیونکہ افریقہ کے اندر نقل وحمل کے راستے ناقص ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' اگر میں گھانا سے سوڈان جارہا ہوں تو اس میں مجھے 13 سے 14 گھنٹے لگ جائیں گے لیکن اگر میں یورپ جا رہا ہوں تو میں چھ گھنٹوں میں وہاں پہنچ جاؤں گا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ گھانا سے اس کے پڑوسی ممالک کو سامان بھجوانا یورپ سامان بھجوانے سے زیادہ مہنگا ہے۔‘‘
Published: undefined
افریقی خطے میں آزاد تجارت کا معاہدہ چند سال قبل طے پایا تھا۔ تاہم اب تک اس معاہدے کا اثر بہت کم ہوا ہے۔ تاجروں کو شکایت ہے کہ یہ صرف محصولات عائد کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ علاقائی منڈیوں تک پہنچنے سے قبل سامان کو خراب ہونے سےبچانے کے لیے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ضرورت ہوگی۔
Published: undefined
افریقہ کی خوراک کی پیداوار کو مسابقتی بنانے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی میں قائم غیر سرکاری تنظیم بریڈ فار دی ورلڈ کے فرانسسکو ماری کے مطابق چھوٹے کسانوں کی مقابلہ کرنے کی صلاحت کو مضبوط بنانا ہو گا۔ ماری نے کہا، "ہمیں خوشی ہو گی اگر دنیا افریقہ کو خوراک کی فراہمی میں خود انحصار ہونے دے تاکہ خوراک کی پیداوارکے عظیم تنوع کو استعمال کیا جا سکے اور افریقی کسان مقامی منڈیوں کو اپنی پیداوار مہیاکرسکیں۔‘‘ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''افریقی مصنوعات کو مقامی منڈیوں میں یورپی مصنوعات سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ یورپی مصنوعات اکثر رعایتی نرخوں پر فراہم کی جاتی ہیں اور مقامی صارفین کا ان پر انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے اب توجہ مقامی طور پر اگائے جانے والے اناج کی بجائے درآمد شدہ گندم پر مرکوز ہے‘‘۔
Published: undefined
ماری کے مطابق توانائی کی فراہمی اور جدید ٹیکنالوجی تک رسائی افریقی کسانوں کو تاجروں کے ساتھ میل ملاپ اور زرعی اجناس تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined