کوئی ایک درجن سے زائد خواتین نے کابل میں خواتین امور کی وزارت کے اس دفتر کے باہر اتوار کے روز مظاہرہ کیا، طالبان حکومت نے جس کا نام تبدیل کر کے اب وزارت برائے 'امر بالمعروف او نہی عن المنکر‘ یعنی'نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے‘ کی وزارت کر دیا ہے۔
Published: undefined
خواتین نے حقوق اور انسانی حقوق کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا،”جس سماج میں خواتین سرگرم نہ ہوں وہ ایک مردہ سماج ہے۔"
Published: undefined
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق طالبان کے کابل کے عبوری میئر حمد اللہ نامونی نے اتوار کے روز کہا کہ اگلے فیصلے تک خواتین ملازمین کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے۔
Published: undefined
حمد اللہ نامونی کا کہنا تھا کہ خواتین کو گھروں سے باہر جا کر صرف ان کاموں کی اجازت ہو گی، جو مرد نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”چند ایسے شعبے ہیں، جہاں مرد کام نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے خواتین عملے کو وہ کمی پورا کرنے کے لیے کہیں گے، اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔"
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق افغانستان بھر میں سرکاری اور نجی دونوں سطح پر خواتین کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے تاہم طالبان نے خواتین کے کام کرنے کے حوالے سے اب تک باقاعدہ پالیسی کا اعلان نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
سن 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان دور میں خواتین کے تئیں انتہائی سخت پالیسیاں نافذ کی تھیں، جن میں مکمل پردے کے بغیر گھروں سے باہر نکلنے والی خواتین کو سر عام مارا پیٹا بھی جاتا تھا۔
Published: undefined
گزشتہ ماہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے اپنی سخت گیر پالیسیوں کو نرم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ انہوں نے 'اسلامی حدود کے اندر‘ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ طالبان نے جس نئی عبوری کابینہ کا اعلان کیا ہے، اس میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
Published: undefined
سیکنڈری اسکولوں میں پڑھنے والی لڑکیوں کو اب تک اسکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور یونیورسٹیوں میں کلاسوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ خواتین پر عائد پابندیوں کے خلاف گزشتہ ماہ بھی سینکڑوں خواتین نے سڑکوں پر مارچ کیا تھا۔
Published: undefined
اتوار کے روز ہونے والے مظاہرے میں شامل ایک خاتون کا کہنا تھا کہ خواتین امور کی وزارت کو بحال کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کو گھروں میں رکھ کر اور اسکول جانے کی اجازت نہ دے کر افغانستان میں خواتین کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ان کا مزیدکہنا تھا،”افغانستان کی آج کی خواتین 26 برس پہلے والی خواتین نہیں ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined