پاکستان اور افغانستان کے درمیان واقع طورخم کی سرحد اس وقت پاکستان سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کا عارضی ٹھکانہ بنی ہوئی۔ وہاں چٹانی پہاڑوں کے دامن میں نیلے خیموں کی ایک کثیر تعداد نظر آتی ہے، جن میں افغان مہاجرین تپتی گرمی میں دن اور ٹھٹھرتی سرد راتیں گزارتے ہیں۔
Published: undefined
سرحد پر موجود حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے مہاجرین کو ملک چھوڑنے کے احکامات کے بعد سے اب تک کم از کم دو لاکھ دس ہزار مہاجرین طورخم کی سرحد پار کر کہ افغانستان جا چکے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنہوں نے اگر اپنی پوری زندگی نہیں تو کئی دہائیاں افغانستان سے دور گزاری ہیں۔ افغانستان جانے سے قبل ان مہاجرین کو مدد کے طور پر15,000 افغانی، جو کہ افغانستان کی مقامی کرنسی ہے، دیے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ رقم ایک ماہ سے زیادہ کسی خاندان کی کفالت کے لیے ناکافی ہے۔
Published: undefined
ان میں سے اکثر مہاجرین کے لیے افغانستان میں اب کچھ نہیں بچا ہے۔ طورخم کی سرحد پر ایک عارضی کیمپ میں مقیم ایسے ہی ایک افغان مہاجر شیر آغا ہیں، جو پاکستان میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کر رہے تھے۔ شیر آغا اپنے نو بچوں کے ساتھ افغانستان کے صوبے قندوز جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے، "ہمارا وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس نہ ہی وہاں کوئی گھر ہے، نہ زمین اور نہ ہی کام۔"
Published: undefined
شیر آٰغا نے پانچ سال کی عمر میں افغانستان چھوڑا تھا۔ اب جب کہ ان کی عمر 43 سال ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کے ذہن میں افغانستان کو کوئی یاد نہیں ۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے اور میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کون سے ملک جا رہے ہیں۔"
Published: undefined
طورخم کی سرحد پر ہی ایک اور خیمے میں اپنے 10 بچوں اور شوہر کے ساتھ 40 سالہ امینہ بھی رہ رہی ہیں۔ ان کا وہاں سے افغانستان کے شہر جلال آباد جانے کا ارادہ ہے، جہاں وہ کہتی ہیں ان کے "کئی بھائی" ہیں۔ امینہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے جلال آباد میں اپنے رشتے داروں سے ایک کرائے کا گھر ڈھونڈنے کی درخواست کی تھی لیکن ان کو بتایا گیا کہ وہاں کوئی گھر کرائے پر دستیاب نہیں ہے۔
Published: undefined
پاکستان میں امینہ کے بیٹے گھر چلانے کے لیے سبزی بیچتے اور رکشہ چلاتے تھے۔ انہیں ڈر ہے کہ اقتصادی بحران کے شکار افغانستان میں جہاں لوگوں کو بیروزگاری کا سامنا ہے، وہاں شاید ان کے بیٹوں کو ذریعہ معاش کے زیادہ مواقع نہ ملیں ۔ وہ کہتی ہے کہ اگر ان کے بیٹوں ک کام نہیں ملا، تو ان کا افغانستان میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔
Published: undefined
طورخم پر ایک اور خیمے میں 16 افراد پر مشتمل گل پری کا خاندان بھی رہ رہا ہے، جن کے پاس رضائیاں نہیں ہیں انہیں مجبورا گتے کے ڈبوں پر سونا پر رہا ہے۔ چھتیس سالہ گل پری کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان پانچ دنوں میں قندوز کی طرف سفر کی شروعات کرنے اور ایک ایسے ملک میں نئی زندگی بنانے جا رہا ہے، جسے انہوں نے آخری بار چالیس سال پہلے دیکھا تھا۔
Published: undefined
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کا خاندان کچرا جمع کرنے کا کام کرتا تھا اور گو کہ وہاں ان کی زندگی مشکل تھی، لیکن افغانستان میں تو "ہمارے لیے کچھ نہیں رکھا"۔ انہوں نے مزید کہا، "ہمیں ڈر ہے وہاں ہم بھوکے رہیں گے۔ لیکن اگر ہمیں وہاں کام مل جاتا ہے تو سب ٹھیک ہوگا۔ پھر ہم اپنے وطن میں خوش ہوں گے۔ پاکستان میں تو ہمیں ہراساں کیا جا رہا تھا۔"
Published: undefined
پاکستان چھوڑنے والے ایک اور افغان مہاجر امان اللہ اپنے خاندان کے ساتھ افغانستان کے صوبے لغمان پہنچ چکے ہیں۔ لیکن وہاں بھی انہیں عارضی طور پر بنائے گئے ایک کیمپ میں رہنا پڑ رہا ہے اور افغانستان میں ان کا فی الحال اور کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ امان اللہ کی عمر اس وقت 43 سال ہے، جن میں سے 35 انہوں نے پاکستان میں گزارے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیمپ میں ان کی بیوی اور چھ بچوں کے لیے رہنا کافی مشکل ہو رہا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں کوئی بیت الخلا نہیں ہے اور بالخصوص خواتین کو دشواری کا سامنا ہے۔ امان اللہ کے بقول کیمپ میں موجود خواتین کو رفع حاجت کے لیے حفاظت کے خیال سے گروپ میں جانا پڑتا ہے اور رات ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کیمپ میں بجلی کی فراہمی کا بھی مسئلہ ہے۔ امان اللہ کہتے ہیں، "اگر ہمیں یہاں پانچ دن، ایک مہینے یا ایک سال مزید رکنا پڑتا ہے تو بھی صحیح ہے، لیکن ہمیں کام اور ایک (مستقل) گھر کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں صفر سے زندگی شروع کر رہے ہیں۔"
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined