مرد، خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افغان شہری پچھلے کئی دنوں سے نئی دہلی میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے دفتر کے باہر بڑی تعداد میں دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ یہ مظاہرین اقوام متحدہ سے 'حمایت کا خط‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ بہتر مواقع کی تلاش میں کسی دوسرے ملک کی طرف نقل مکانی کر سکیں۔
Published: undefined
ان افغان مظاہرین نے ایک کمیٹی بھی قائم کر لی ہے، جسے افغان سالیڈیریٹی کمیٹی(اے ایس سی) کا نام دیا ہے۔ مظاہرین میں گزشتہ چند دنوں کے دوران افغانستان سے آنے والے شہریوں کے علاوہ نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں پہلے سے مقیم افغان شہری بھی شامل ہیں۔
Published: undefined
کمیٹی کے سربراہ احمد ضیا غنی نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھارت میں تقریباً 21 ہزار افغان پناہ گزین ہیں لیکن ان میں سے صرف سات ہزار کے پاس ہی قانونی دستاویزات (بلیو پیپر) یا کارڈ ہیں۔
Published: undefined
ضیا غنی کا کہنا تھا، ”بھارت میں افغانوں کی حالت اچھی نہیں ہے اور ان کے لیے یہاں بہت ہی کم مواقع ہیں۔ آخر ہمیں کسی تیسرے ملک جانے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل تلاش کر سکیں۔ یو این ایچ سی آر کو ہماری درخواستوں پر غور کرنا چاہیے اور ہمیں ضروری دستاویزات جاری کرنا چاہییں۔"
Published: undefined
اپنا ملک چھوڑ کر بھارت آنے کے خواہش مند افغانوں کے لیے بھارتی حکومت نے ایک نئی ویزا اسکیم شروع کی ہے۔ نئی اسکیم کے تحت گوکہ یہ ویزے سکیورٹی جانچ کے بعد ہی جاری کیے جائیں گے لیکن یہ چھ ماہ کے لیے قابل قبول ہوں گے۔ تاہم اس اقدام کو بھی ناکافی بتایا جا رہا ہے۔ ان افغان باشندوں کو مہاجرین کا درجہ دینے کے لیے مختلف حلقوں کی جانب سے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت کو افغانستان چھوڑ کر آنے والوں کو مہاجرین کا درجہ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصیبتوں کے مارے ان انسانون کے ساتھ حکومت کو ہمدردانہ سلوک کرنا چاہیے۔
Published: undefined
تاہم بعض دیگر حلقے بالخصوص شدت پسند قوم پرستوں کی جانب سے بھارت میں افغانوں کو مہاجرین کا درجہ دینے کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ بھارت کو ئی 'اناتھ آلیہ‘ (یتیم خانہ) نہیں ہے جہاں ہر ایک کو پناہ دے دی جائے۔ شدت پسند قوم پرستوں کا یہ طبقہ پہلے سے ہی روہنگیا مسلمانوں کی بھارت میں موجودگی کے سخت خلاف ہے اور انہیں بھارت سے واپس بھیجے جانےکا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔
Published: undefined
بھارت میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً تین لاکھ پناہ گزین رہتے ہیں۔ ان میں سری لنکا اور تبت کے پناہ گزین بھی شامل ہیں جب کہ تقریباً پانچ لاکھ کے قریب نیپالی تارکین وطن بھی بھارت میں مقیم ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کے پاس آج تک نہ تو مہاجرین کے حوالے سے کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی۔ حکومت جب چاہے انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دے سکتی ہے اور غیر ملکی شہریوں سے متعلق قانون یا پاسپورٹ قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ بھارت نے ابھی تک مہاجرین اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر بھی دستخط نہیں کیے۔
Published: undefined
افغانستان سے سن 1970اور 1990کی دہائیوں میں بھی مہاجرین بھارت آئے تھے۔ ان میں سے بیشتر طویل المدتی ویزوں کی بنیاد پر بھارت میں مقیم ہیں۔ انہیں ہر بار ایک سال کے لیے ویزے یا پرمٹ جاری کیے جاتے ہیں تاہم اس تجدید سے پہلے ان کے بارے میں اچھی خاصی تفتیش کی جاتی ہے۔ ان غیر ملکیوں کو کسی کمپنی یا ادارے میں باضابطہ ملازمت کا حق حاصل نہیں ہے لہٰذا یہ چھوٹے موٹے کام یا پھر تجارت کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined