یونان کے تھیوا مہاجر کیمپ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رویا رسولی افغان مہاجر لڑکیوں کے ایک گروپ کو رنگوں اور برش کے استعمال کے ساتھ نقاشی کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کی تربیت دیتی ہے۔ جوش و ولولے سے بھرپور یہ افغان لڑکیاں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو نکھارنے اور انہیں دنیا کے سامنے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہم وطن لڑکیوں اور خواتین کی ہمت بڑھانا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ ایسی نقاشی کریں جو افغان خواتین کی زباں بندی کے باوجود ان کے اندر چھپی صلاحیتوں اور اظہار کی مضبوط قوت سے دنیا تک پہنچا سکے۔
Published: undefined
یونان کے تھیوا مہاجر کیمپ کے کے ایک چھوٹے سے کمرے کی ایک نیلی دیوار پر رویا رسولی کی ذاتی کچھ پینٹنگز لٹک رہی ہیں۔ ان میں سے ایک پینٹنگ وہ ہے جو 1985 ء میں نیشنل جیوگرافک میں چھپنی والی افغان بچی کی وہ شاہکار تصویر ہے جس میں ایک سبز آنکھوں والی افغان بچی سرخ ہیڈ اسکارف لگائے دکھائی دیتی ہے۔
Published: undefined
یہ تصویر عشروں سے بحران کے شکار ملک افغانستان کی جنگ کی علامت بن گئی۔ رسولی نے اسی بچی کی پینٹنگ خود سے بنائی لیکن اسے اپنے فن نقاشی کے قالب میں ڈھالتے ہوئے بغیر مُنہ کے بنایا۔ ایسا کیوں؟ اس کے جواب میں رسولی کہتی ہے،'' میں دکھانا چاہتی ہوں کہ افغان خواتین کیسی ہوتی ہیں، افغانستان میں خواتین کو بولنے کی اجازت نہیں۔ کوئی ان کی بات نہیں سنتا، ان کے پاس کوئی حقوق نہیں ہیں۔‘‘ سیاہ روشنائی میں ڈوبی ہوئی انگلیوں کیساتھ رسولی کام کر رہی اور اپنا پیغام بھیج رہی ہے۔ اُس کا مزید کہنا تھا،'' میرے خیال میں بہت سی خواتین کی یہی صورتحال ہے، شام ہو یا عراق، پاکستان ہو یا شاید چند یورپی ممالک میں بھی۔‘‘
Published: undefined
رسولی یونان کے مہاجرکیمپ میں جن لڑکیوں کو نقاشی کی تربیت دے رہی ہے اُن سے خود سوال کرتی ہے،'' دیگر لڑکیوں اور خواتین کے لیے آپ کا کیا پیغام ہے؟‘‘ ان میں سے ایک لڑکی نے چیخ کر جواب دیا،'' مضبوط بنیں۔‘‘
Published: undefined
رویا رسولی کی پیدائش ایران میں ہوئی تاہم وہ افغانستان سے بطور مہاجر یونان پہنچی۔ اُس نے پہلے کبھی پینٹ اور برش کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ تین برس پہلے یہ یونان پہنچی تھی۔ وہاں آ کر اُس نے نقاشی میں دلچسپی لینا شروع کی۔ یونان کے تھیوا مہاجر کیمپ میں وہ قریب پانچ سو مہاجرین کیساتھ زندگی بسر کر رہی ہے۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے۔ تھیوا کیمپ یورپ کے مختلف ممالک میں قائم درجنوں مہاجر کیمپوں میں سے ایک ہے۔ یونان میں 2015 ء کے مہاجرین کے بحران کے بعد سے اب تک جنگ اور غربت کے شکار ممالک سے بھاگ کر پناہ کے متلاشی لاکھوں افراد یونان پہنچے ہیں اور وہاں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افغانستان کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں سے بھاگ کر یورپ میں داخل ہونے کے خواہشمند مہاجرین سب سے زیادہ یونان کا رخ کرتے ہیں جہاں سے وہ بر اعظم یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔
Published: undefined
افغان لڑکی رویا رسولی نے یونان پہنچ کر اپنے لیے ایک بہتر مستقبل کی تلاش شروع کی اور عملی طور پر یہ دکھا دیا کہ لڑکیاں یا عورتیں اپنے بل بوتے پر کیا کچھ کر سکتی ہیں۔ وہ یونان کے تھیوا مہاجر کیمپ سے روزانہ صبح ساڑھے پانچ بجے نکلتی اور قریب ڈیڑھ گھنٹے کا بس کا سفر طے کر کے ایتھنز کے اسکول آف فائن آرٹس جاتی اور وہاں کلاسیں لے رہی ہے، اس اُمید پر کے اُسے ایک نا ایک دن اسکالر شپ مل جائے گی اور وہ جز وقتی نہیں بلکہ کُل وقتی تعلیم حاصل کر سکے گی۔ رسولی کہتی ہے،'' جب میں پینٹننگ یا نقاشی کرنا شروع کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے میں کسی اور دنیا میں سفر کر رہی ہوں، ایک ایسی جگہ جہاں امن ہے۔‘‘ رسولی نے خود اپنے آپ انگریزی بھی سیکھ لی ہے۔
Published: undefined
رویا رسولی کی ایک اور پینٹنگ میں معروف ولندیزی آرٹسٹ وینسنٹ فان گوخ کے فن کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ '' اسٹاری نائیٹ‘‘ ایک افغان خاتون روایتی نیلے برقعے میں لپٹی گٹار بجا رہی ہے۔ '' میں یہ دکھانا چاہتی تھی کہ وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں۔
Published: undefined
وہ آزاد ہیں خود اپنی قوت و صلاحیت پر یقین رکھ سکتی ہیں، وہ جو چاہیں کر سکتی ہیں۔ وہ جو پسند کریں انہیں اپنے لیے کرنا چاہیے۔ اپنی ذات کو پہچاننا اور ماننا ان کے اپنے لیے یہت ضروری ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے رسولی کا۔ اُس نے مزید کہا کہ'' بولنا بہت اچھی بات ہے۔‘‘
Published: undefined
رسولی یونان میں یونیسیف کی فنڈنگ اور ایما پر چلنے والے ایک چیرٹی اینڈ سولیڈیریٹی پروگرام کے تحت یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ وہ امید کرتی ہے کہ دیگر لڑکیاں بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اُس سے سبق حاصل کریں گی۔ رویا رسولی کے بقول،'' میں نے اپنی اُمیدوں اور اپنے خوابوں کے ساتھ اپنی زندگی بدل ڈالی۔‘‘ خود کی مثال پیش کرتے ہوئے رسولی دیگر لڑکیوں کو بھی اپنے اپنے مقاصد اور خواب سچ کر دینے کی تلقین کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے،'' میں انہیں یہ دکھانے کی پوری کوشش کروں گی کہ وہ آزادی کے لیے جو چاہیں کر سکتی ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined