سماج

کورونا وائرس پر فیس بک پوسٹ، بنگلہ دیشی لیکچرر گرفتار

بنگلہ دیشی پولیس نے ایک فیس بک پوسٹ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے سابقہ وزیر صحت پر طنز کرنے والی ایک لیکچرر کو حراست میں لے لیا ہے۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا 

بنگلہ دیشی پولیس نے ایک جامعہ کی پروفیسر کو اس ''جرم‘‘ میں حراست میں لے لیا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں کووِڈ انیس کی وجہ سے ہلاک ہو جانے والے سابقہ وزیر صحت پر طنز کیوں کیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق حکومت کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکومتی تدابیر پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

Published: undefined

28 سالہ سراج المُنیرا کو ملک میں نافذ متنازعہ "ڈیجیٹل سکیورٹی قوانین" کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ مقامی پولیس سربراہ ربیع الاسلام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''انہوں نے سابقہ وزیر صحت محمد نسیم کی ہلاکت پر توہین آمیز جملے پوسٹ کیے۔ یہ بیان وائرل ہوا اور اس پر منفی ردعمل سامنے آیا، جس سے ملک کے تشخص کو نقصان پہنچا۔‘‘

Published: undefined

منیرا شمالی بیگم رقیعہ یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ منیرا نے بعد میں اپنی اس پوسٹ پر معذرت کی اور یہ پوسٹ ڈیلیٹ کر دی۔ اتوار کے روز ایک عدالت نے منیرا کی ضمانت کی درخواست رد کر دی اور انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے مقدمے کی اگلی سنوائی آج ہو رہی ہے۔

Published: undefined

متنازعہ انٹرنیٹ قوانین

Published: undefined

بنگلہ دیش میں رواں برس مارچ سے اب تک کم از کم 44 افراد کو ملک کے متنازعہ انٹرنیٹ سکیورٹی قوانین کے تحت کورونا وائرس کی وبا سے متعلق "افواہیں پھیلانے" کے جرم میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں کووِڈ انیس کے انسداد سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو ان قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سن 2018 میں پاس ہونے والے ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ کی سیکشن 32 کے تحت کسی بھی سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار ادارےکی کسی بھی طرز کی معلومات کی خفیہ ریکارڈنگ جاسوسی قرار دی گئی ہے۔ متعدد صحافی اور آن لائن ایکٹیویسٹس جو خفیہ ریکارڈنگز کے ذریعے حکومتی عہدیداروں کی کرپشن سے متعلق اسکینڈلز افشا کرتے تھے، اب اس خوف کا شکار ہیں کہ کہیں انہیں بھی جاسوسی کے جرم میں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر کسی شخص کو 14 برس قید اور بیس ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

Published: undefined

معاشرتی عدم برداشت

Published: undefined

بنگلہ دیش میں حالیہ کچھ عرصے میں حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید کے والوں کے لیے راستہ مسدود ہوتا دکھائی دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل متنبہ کر رہی ہیں کہ ملک میں حکومت کے ناقدین کے لیے حالات ناسازگار بنائے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ کچھ برسوں میں بنگلہ دیش میں سیکولر اور لبرل بلاگرز پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، جن کے نتیجے میں متعدد بلاگرز ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسے پرتشدد واقعات میں کئی شدت پسند تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایسے پرتشدد حملوں میں شدت سن 2013 تا 2016دیکھی گئی تھی، جب متعد د سیکولر اور ایتھیسٹ لکھاریوں، بلاگرز اور پبلشرز پر حملے دیکھے گئے تھے۔ ان تین برسوں میں مجموعی طور پر 48 افراد نفرت انگیزی سے جڑے ان حملوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔

Published: undefined

بنگلہ دیش میں متعدد شدت پسند تنظیمیں بھی انٹرنیٹ ہی کے ذریعے اپنے پیغامات کی ترویج اور نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب مائل کر رہی ہیں۔ حکومتی موقف رہا ہے کہ وہ انٹرنیٹ سکیورٹی قوانین کے ذریعے نفرت انگیزی کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کے استعمال کا انسداد چاہتی ہے۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ان قوانین کو حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

Published: undefined

کورونا کیسوں میں اضافہ

Published: undefined

بنگلہ دیش میں اس وقت نوے ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، جب کہ اس وبا سے جڑی ہلاکتوں کی تعداد لگ بھگ بارہ سو ہے۔

Published: undefined

فقط اتوار کے روز بنگلہ دیش میں کورونا وائرس کے تین ہزار ایک سو اکتالیس نئے کیسز ریکارڈ کیے گئے۔ ہفتے کو بنگلہ دیش نے وزیرمملکت برائے مذہبی امور شیخ عبداللہ اسی وبا کے نتیجے میں ہلاک ہو ئے ہیں۔ وزیراعظم حسینہ واجد کی کابینہ کے دو وزراء کے علاوہ پانچ اراکین پارلیمان میں اس وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کے تمام سرکاری ہسپتال کووِڈ انیس کے مریضوں سے بھر چکے ہیں اور ملک میں انتہائی نگہداشت کے بستروں اور وینٹیلیٹرز کی شدید قلت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined