سعودی عرب نے منگل کے روز چھبیس سالہ مصطفی الدرویش کی سزائے موت پر عمل کیا اور ان کی گردن مار دی گئی۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصطفی درویش پر جن جرائم کے ارتکاب کا الزام تھا وہ ان سے سن بلوغت تک پہنچنے سے قبل سرزد ہوئے تھے۔ سعودی عرب کے حکام نے اس سزائے موت پر عمل درآمد کی تصدیق کر دی ہے۔
Published: undefined
مصطفی الدرویش کو سن 2011 اور 2012 میں فسادات میں ملوث ہونے والے افراد سے ملاقاتیں کرنے، ''مسلح بغاوت میں حصہ لینے'' بدامنی پھیلانے، اور سکیورٹی فورسز کو ہلاک کرنے کے لیے سازشیں کرنے سمیت متعدد الزامات کے تحت قصور وار ٹھہرایا گیا تھا۔
Published: undefined
انہیں سن 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2018 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس برس مئی کے اواخر میں موت کی سزا کے خلاف وہ قانونی لڑائی ہار چکے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے متنبہ کیا تھا کہ اب ان کی موت کی سزا پر عمل یقینی ہے الّا یہ کہ شاہ سلمان خود اس میں مداخلت کریں۔
Published: undefined
مصطفی الدرویش کا تعلق سعودی عرب کی اقلیتی شیعہ برادری سے ہے اور بہار عرب کے دوران ملک میں جہاں بھی شیعہ اکثریت میں ہیں وہاں سعودی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے تھے۔ درویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے نے بھی صرف حکومت مخالف مظاہروں میں ہی حصہ لیا تھا۔
Published: undefined
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے مطابق 26 سالہ درویش کو جن الزامات کا سامنا تھا وہ ان سے اس وقت سرزد ہوئے ہوں گے جب ان کی عمر تقریباً 17 یا اٹھارہ برس کی رہی ہو گی۔ لیکن سعودی حکام کا دعوی ہے کہ اس وقت وہ سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے تاہم حکام نے اس سلسلے میں کوئی دستاویز یا ثبوت فراہم نہیں کیا۔
Published: undefined
مصطفی الدرویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں جرائم قبول کرنے کے لیے دوران حراست اذیتیں دی گئی تھیں اور بعد میں انہوں نے اپنے اقبالیہ بیان سے انحراف بھی کیا تھا۔ ان کے گھر والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں درویش سے رابطہ کرنے بھی نہیں دیا گیا جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوی ہے کہ اس مقدمے کی سماعت انصاف پر مبنی نہیں تھی۔
Published: undefined
درویش کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ منگل کے روز سزائے موت پر عمل سے متعلق انہیں اطلاع تک نہیں دی گئی اور انہیں اس کی جانکاری آن لائن میڈیا سے ملی۔ ان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ درویش کو، ''چھ برس قبل ان کے دو دوستوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے انہیں بغیر کسی الزام کے رہا بھی کر دیا تھا تاہم ان کا فون ضبط کر لیا تھا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ فون سے دستیاب ایک فوٹو پر انہیں سخت اعتراض تھا۔''
Published: undefined
''بعد میں انہوں نے ہمیں فون کیا اور درویش کو فون واپس لے جانے کے لیے بلایا لیکن فون دینے کے بجائے انہوں نے اسے حراست میں لے لیا۔ وہ ایک لڑکے کو فون میں ایک تصویر کی وجہ سے موت کی سزا کیسے دے سکتے ہیں؟''
Published: undefined
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیموں نے اس بنیاد پر درویش کو موت کی سزا نہ دینے کی اپیل کی تھی کہ ان سے جو بھی غلطیاں سرزد ہوئیں وہ سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوئی تھیں۔
Published: undefined
سعودی عرب دنیا میں موت کی سزا پر عمل کے لیے معروف ہے جہاں ہر برس درجنوں افراد کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔ تاہم گزشتہ برس شاہ سلمان نے اپنے ایک اہم فیصلے میں کہا تھا کہ کم عمروں کو موت کی سزا دینے کے بجائے ایسے مرتکبین کو صرف دس برس جیل کی سزا دی جائے گی۔ تاہم سعودی عرب کی میڈیا میں اس فیصلے کے بارے میں کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی۔
Published: undefined
برطانوی تنظیم ریپریو کی سربراہ مایا فوا کا کہنا تھا، ''مصطفی الدرویش کی موت سزا پر عمل سے یہ بات پھر واضح ہو جاتی ہے کہ سعودی سلطنت نے کم عمروں کے لیے موت کی سزا کو ختم کرنے کا جو دعوی کر رکھا ہے وہ سچ نہیں ہے۔'' انہوں نے یورپی رہنماؤں سے اپیل کی وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچوں کے جرائم کے لیے موت کی سزا ناقابل قبول ہو۔
Published: undefined
ایک عالمی تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت جو 53 افراد کو موت کی سزاؤں کے لیے جیل میں ہیں ان سے کم سے چار ایسے ہیں جن سے مبینہ جرائم اس وقت سرزد ہوئے تھے جب وہ اٹھارہ برس سے بھی کم عمر کے تھے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز