14 دسمبر 2019 یعنی کل پورا ایک سال ہو جائے گا جب دہلی کے شاہین باغ علاقہ کی کچھ خواتین مظاہرہ کرنے ایک سڑک پر بیٹھ گئی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مظاہرہ نے نہ صرف عالمی شہرت حاصل کرلی بلکہ ملک اور دہلی میں خود کئی مقامات پر شاہین باغ بن گئے یعنی جگہ جگہ شاہین باغ کی طرز پر خواتین شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سڑکوں پر جمع ہونے لگیں۔ خواتین کا مظاہرہ اس متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تھا جس سے ملک کا ایک بڑا طبقہ خوفزدہ تھا کہ اس قانون کے بعد ان کی شہریت پر سوال کھڑے کیے جائیں گے اور ان کی شہریت ختم ہو جائے گی۔
Published: undefined
سردیوں کے موسم میں شروع ہوا یہ مظاہرہ جہاں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا وہیں ملک میں سماج کے دو فرقوں میں تفریق کی وجہ بھی بنا۔ اس قانون کی وجہ سے ملک میں اقلیتی طبقہ اور اکژیتی طبقہ میں واضح خلیج پیدا ہوئی اوراس کا نتیجہ بھی ہم نے شمال مشرقی دہلی میں فرقہ واران فساد کی شکل میں دیکھا۔ اس کی یادیں اتنی تکلیف دہ ہیں کہ ان کے ذکر کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ کووڈ یعنی طبی وبا کی آمد اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ملک کے تمام شاہین باغ اجڑ گئے اور لوگ اپنی جان بچانے میں لگ گئے۔
Published: undefined
اس مظاہرہ کی دو باتیں بہت اہم تھیں، ایک تو پہلی مرتبہ خواتین اور ان میں بھی اقلیتی طبقہ کی خواتین کی اکثریت میدان میں آئی، دوسرا یہ کہ حکومت نے پہلے خاموشی پھر بیانات اور پھر اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کیا، لیکن نہ تو کسی کو بات کرنے کے لئے بلایا اور نہ ہی کوئی حکومت کا نمائندہ بات کرنے کے لئے ان مظاہرہ کر رہی خواتین کے پاس گیا۔ اب اس سال تین زرعی قوانین بنائے گئے اس کے خلاف خوب احتجاج ہوا، پارلیمنٹ میں ان بلوں کو غور کرنے کے لئے سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن حکومت نے نہ حزب اختلاف کے مطالبہ کو تسلیم کیا اور نہ ہی اس بات کی پرواہ کی کہ اس قانون کی وجہ سے این ڈی اے کا سب سے پرانا رکن اکالی دل بھی این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دے گا۔
Published: undefined
ملک کے کسانوں میں خاص طور سے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں میں ان قوانین کے خلاف غصہ بھڑک اٹھا اور انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں احتجاج اور مظاہرہ کرنے شروع کر دیئے لیکن حکومت ان مظاہروں کو بالکل خاطر میں نہیں لائی، جس کے بعد 26 نومبرکو یہ کسان دہلی کی طرف روانہ ہوئے۔ پہلے ان کسانوں کو ہریانہ میں ہی روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور جب یہ کسان نہیں مانے تو طاقت کا استعمال بھی کیا گیا اور ان پر پانی کی بوچھاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ جب یہ کسان اتنے پر بھی نہیں رکے تو پھر ان کو دہلی میں جنترمنتر یا رام لیلا میدان کی اجازت نہ دے کر براڑی میں جگہ دی گئی۔ قصہ مختصر کسان دہلی کی سرحدوں پر ہی احتجاج کر رہے ہیں بس وہ شاہین باغ کی خواتین کے مقابلہ میں اس لئے خوش قسمت ہیں کہ حکومت نے اب تک ان کے ساتھ چھ دور کی بات کر لی ہے اور آگے بھی بات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
Published: undefined
کسانوں کے احتجاج کو پنجاب کے احتجاج سے لے کر سب طرح کے نام دیئے گئے اور اب حکمراں جماعت کے کچھ لوگ اس کو شاہین باغ 2 کا نام دے رہے ہیں۔ کسان ان قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جبکہ حکومت ترمیمات کرنے کے لئے تیار ہے، لیکن ان قوانین کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس لحاظ سے بھی کسان شاہین باغ کی خواتین کے مقابلہ خوش قسمت ہیں کیونکہ حکومت بات چیت بھی کر رہی ہے اور ترمیمات کے لئے بھی تیار ہے۔ اگر حکمراں جماعت کے کچھ لوگ کسان تحریک کو بھی شاہین باغ 2 کا نام دے رہے ہیں تو کیا حکومت وہی رویہ رکھے گی جو شاہین باغ 1 کے ساتھ رکھا تھا۔
Published: undefined
حکومت اگر احتجاج کے بعد ترمیمات کے لئے تیار ہیں تو کہیں نہ کہیں قانون میں کچھ خامیاں تو تھیں جس کو وہ صحیح کرنے کے لئے اب تیار ہے۔ حکومت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ عوام سے ہے اور عوام کے لئے ہے اس لئے عوام کو اگر کسی بھی قانون پر کچھ تحفظات ہوتے ہیں تو اس کو وقت رہتے ہی دور کر لینا چاہیے۔ شاہین باغ کی خواتین کے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور 500 روپے، بریانی کے لئے احتجاج کرنے کا نام دینے سے اپنے ہم خیال لوگوں کو وقتی ہتھیار تو دے دیا جاتا ہے مگر ایسے بیانات سے ملک میں تفریق کے بیج بو دیئے جاتے ہیں۔
Published: undefined
کسانوں کی تحریک کو بھی پنجاب، خالستانی اور بوڑھی خواتین کو چند پیسوں کے لئے احتجاج کرنے کے لئے بدنام کرنے کے بجائے کسانوں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے فیصلہ لینے چاہیئں۔ ملک کی ساکھ عالمی سطح پر خراب ہو رہی ہے۔ شاہین باغ کی دادیوں کو جہاں عالم میں شہرت اور عزت مل رہی ہے وہیں کسانوں کے حق میں کینیڈا اور کئی دیگر ممالک میں ہمارے مسائل پر بات ہو رہی ہے اوریہ ہماری ملک کی ساکھ کے لئے اچھا نہیں ہے۔ میں کیوں نہ کہوں کہ حکومت کو زرعی قوانین کے ساتھ ساتھ شہریت ترمیمی قانون پر بھی از سر نو غور کرنا چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined