طلاق ثلاثہ بل چار گھنٹے کی بحث کے بعد لوک سبھا میں کل منظور ہو گیا لیکن اس دوران اس میں موجود کئی خامیاں سامنے آئیں۔ طلاق ثلاثہ بل کو جس عجلت میں لایا گیا اس سے یہ بات تو واضح ہے کہ اس کی بنیاد سیاست ہے اور انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے اس کو لایا گیا ہے۔ اس سب کے با وجود اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ عجلت سے تیار اس بل میں اتنی خامیاں ہو سکتی ہیں۔
مجوزہ بل جو راجیہ سبھا میں منظور ہو تا نظر نہیں آتا اس میں اہم شق یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں تین طلاق دینے کو جرم کے زمرے میں لایا جائے۔ اس بل پر بولتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنماؤں نے جن پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اس سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ یہ قانون عملی اور قانونی طور پر چل نہیں سکتا۔
سب سے پہلے اس میں یہ ہے کہ شوہر کو تین سال کی سخت سزا دی جائے گی اور ایسا کسی بھی مذہب میں نہیں ہے کہ شوہر کے تین الفاظ کہنے پر اتنی سخت سزا ہو ۔دوسرا اس قانون میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ شوہر کے جیل جانے کی صورت میں بیوی اور بچوں کے اخراجات کون اٹھائے گا، اور تیسرا سب سے بڑا یہ ہے کہ اس سے میاں بیوی میں دوبارہ مصالحت کے تمام راستے بند ہو جائیں گے۔ ان پہلوؤ ں کے علاوہ بحث کے دوران اندازہ ہوا کہ اس میں بہت زیادہ متضاد باتیں ہیں اور بہت سے پہلو ؤں پر تصویر صاف نہیں ہے۔ جو ایسے مسائل ہیں ان کا ایک مختصر خاکہ درج زیل ہے۔
بل کا مقصد مسلم خواتین کو آئینی، اخلاقی ، سماجی وقار اور جنسی برابری فراہم کرنا ہے لیکن اس بل نے تو سول قانون کو ہی جرائم کے قانون میں تبدیل کر دیا ہے۔ شادی ایک سول کانٹریکٹ ہے تو پھر طلاق کیسے جرم کے زمرے میں آسکتی ہے ۔ یہ ہندو مذہب اور ہندو سول قانون میں موجود نہیں ہے۔ ایسا عیسائی مذہبی قانون میں بھی نہیں ہے۔ حکومت مسلم مذہب میں سول قانون کو کیسے جرم کے زمرے میں لا رہی ہے؟
Published: undefined
اس کے علاوہ بل میں کچھ بڑی خامیاں ہیں جیسے کہ سپریم کورٹ نے طلاق بدعت یعنی ایک نشست میں تین طلاق دینے کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ انصاف کے تعلق سے یہ بنیادی بات ہے کہ ایسے کسی شخص کو ایسے کسی عمل کے لئے سزا نہیں دی جا سکتی جس عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ جب عدالت نے اپنے 22 اگست 2017 کے حکم نامہ میں کہہ دیا کہ اس طرح طلاق ہو ہی نہیں سکتی یعنی ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق کہنے سے طلاق نہیں ہوگی تو پھر کوئی بھی شوہر کہتا رہے اس کا اثر تو ختم ہو گیا۔ تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس کو جرم کے زمرے میں لانے کے لئے قانون بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
لوک سبھا میں بحث کے دوران کئی خامیوں کے تعلق سے سوال اٹھائے گئے لیکن حکمراں جماعت کی طرف سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا گیا اور یہ شاید اس لئے کیونکہ ان کے پاس کوئی مدلل جواب نہیں تھا۔ جو بھی ہو اس بل کا مقصد مسلم خواتین کو خوش کر کے ان کو بی جے پی کے لئے ووٹ کرنے کی جانب راغب کرنا تھا ۔حکمراں جماعت کو بھی معلوم ہے کہ یہ بل راجیہ سبھا میں اٹک جائے گا، اس لئے اس کی سوچ یہی رہی ہے کہ اس بل کو تیار کرنے میں کیوں اتنی توجہ دی جائے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined