موسمِ بہار اختتام کو پہنچنے ہی والا ہے اور ویسے بھی ہولی کے بعد مغرور گرمی کا رسمی آغاز ہو جاتا ہے۔ لیکن فی الحال موسمِ بہار سیمل اور پلاش کے پھولوں سے شرابور آسمان کو شدتِ جذبات سے چھوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ قرب و جوار کی ہر چیز، ہر شخص ذہنی طور پر، قدرتی طور پر اور روحانی طور پر بھی اپنے محبوب سے ملنے کی بے تابی لیے ہوئے ہے... اور ساتھ میں ہے انتظار، بے قراری اور تڑپ۔ اس کی بھی اپنی خوبصورتی ہے، کسک ہے اور خوشی بھی...
اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
ہولی ایک مرتبہ پھر دل میں اس کسک کو،چاہت کو اور تڑپ کو تازہ کر جاتی ہے۔ ہلکی سی گرمی میں ضم ہوتے موسمِ بہار کی بھینی سی خوشبو جو ہمیں اس وقت اپنے آغوش میں لیتی ہے، اس سے کوئی بھی نا آشنا نہیں رہ سکتا۔ کیا آپ نے یہ بھینی خوشبو محسوس کی ہے؟ آپ ملک کے کسی بھی گوشہ میں ہوں، بدلتے ہوئے موسم کی یہ خوشبو آپ کو خود میں جذب کر لیتی ہے اور پتّے بسنتی ہوا میں گرتے اور لہراتے پھرتے ہیں۔ قدموں کے نیچے چرمراتی پتّیوں سے آپ بے خیال نہیں رہ سکتے۔ لیکن سنبھل کر، یہ خشک اور درخست سے جدا ہو چکی پتیاں آپ کو ان یادوں کے سمندر میں بہا کر لے جا سکتی ہیں جنھیں آپ نے انتہائی شدت سے کہیں اندر چھپا کر رکھا تھا... اتنا دور کہ آپ کا آج یعنی حال سے ناطہ ہی منقطع ہو جائے۔
اور پھر رنگ! یہاں تک کہ ناامیدی کی حد تک کمہلائے تنے (stems) پر بھی ہلکی سی چمکتی سبز کلیاں پھوٹ پڑتی ہیں... نازک، چمکدار اور اتنی شفاف جیسے حیات کی نشانی۔ موسمِ بہار کا سفر ختم ہوتا ہے ہولی پر اور پھر آغاز ہوتا ہے بے رحم گرمی کا۔ اسی لیے ہولی رنگوں کا، چاہت کا، انتظار کا اور محبت کا تہوار ہے۔
مجھے یاد ہے، بچپن میں اس موسم کے دوران شرارت کرنے کا جوش۔ ہولی میں آپ کو شرارت کرنے، شور کرنے... یہاں تک کہ ضدی اور ڈھیٹ ہو جانا بھی کم دلچسپ نہیں۔ مجھے ایک ہولی خصوصی طور پر یاد ہے جب میں نوعمری کی اُمنگ میں اپنی ایک دوست کے ساتھ گھنٹوں بے شمار پھولوں پر رنگ ڈال ڈال کر چیختی رہی تھی... ہنسو! ہنسو! تم میری طرح کیوں نہیں ہنس سکتے!
اس وقت ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ رنگ پھولوں کے ذریعہ ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہتے ہیں... کبھی شرارت سے، کبھی محبت سے، کبھی درد سے اور کبھی اُداسی سے۔ پھولوں کے یہ رنگ دھیرے دھیرے تجارت کا حصہ بن گئے اور بڑے ہونے کا مطلب ہو گیا زندگی کو سیاہ و سفید میں لپیٹ کر دیکھنا اور سمجھنا۔ اس دوران کئی ہولیاں آئیں اور گزر گئیں۔ تہوار مزید شور و غل سے بھرا، بھونڈا اور بھڑکیلا ہو گیا۔
رنگوں میں بھی بٹوارا ہو گیا۔ کیسریا جو عموماً محبت کا رنگ تصور کیا جاتا ہے، اب بہادری، فتح اور اقتدار کا رنگ بن گیا۔ سبز یعنی ہرا رنگ ایک خاص طبقہ سے جڑ گیا اور گہرا نیلا رنگ دلت و پسماندہ ذاتوں کا ہو گیا۔ اسی طرح لال رنگ بایاں محاذ والوں کو ہو گیا، گلابی رنگ لڑکیوں کا اور نیلا رنگ لڑکوں کا... وغیرہ وغیرہ۔ حد تو یہ ہے کہ رنگوں کا بھی سیاسی اور سماجی طور پر بٹوارا ہو گیا۔
ان سب کے درمیان مجھ جیسے لوگ اس رنگ کی تلاش میں گھومتے رہے جس پر بٹوارے کا داغ نہ ہو، آخر ہم کس رنگ سے ہولی کھیلیں؟
دیس بدیس میں ڈھونڈ پھری ہوں
تورا رنگ من بھایو نظام الدین
ایسو رنگ اور نہیں دیکھی کہیں بھی میں تو
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے خواجہ جی
موہے رنگ بسنتی رنگ دے خواجہ جی
زندگی اور موت، ایمان، کفر اور روحانیت کے تمام رنگوں کے کھیل کا نام ہے ہولی۔ یہ محض ایک تہوار نہیں ہے، یہ تمام انسانی جذباتوں اور وجودیت کے رنگوں کی لگاتار جستجو کا تہوار ہے۔ اس میں جوشیلی جارحیت اور تشدد بھی ہے جو ہولی کا ضروری حصہ ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ سبھی اندرونی جذبات و جنون، محبت اور لگاؤ کی عکاسی کرتے ہیں...
ھوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
نام نبی کی رتن چڑھی، بوند پڑی الا اللہ
رنگ رنگیلی اوہی کھلاوے جو سکھی ھووے فنا فی اللہ
ھوری کھیلوں گی کہہ کر بسم اللہ
جی ہاں، بالکل یہی۔ آج جس رنگ سے ہولی کھیلنے کی ضرورت ہے وہ ہے بسنتی رنگ (جس کو نہ ہم نارنگی کہہ سکتے ہیں نہ ہی وہ پوری طرح کیسریا ہوتا ہے، نہ ہی لال یا گلابی... زیادہ سے زیادہ اسے بسنت کا رنگ ہی کہہ کر سمجھایا جا سکتا ہے) اور اس رنگ کا احساس کرنے، اسے سمجھنے کے سفر کی تو ابھی ہم نے شروعات بھی نہیں کی ہے۔
فی الحال آئیے ہم محبت کے رنگ سے ہولی کھیلیں، وہ رنگ جس میں سبھی رنگوں کا اثر ہوتا ہے، اور تمام اچھے و برے رنگوں میں گھل کر وہ امن کے رنگ میں بدل جاتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز