سماجی

یہ یومِ جمہوریہ خواتین کے لیے نہیں!

ہمارا سماج ایک زبردست بیماری کے دور سے گزر رہا ہے۔ خواتین ’برابری‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ روایات پر عمل کریں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

دسمبر 2012 کی خوفناک یاد ہماری یادوں میں ہلکی بھی نہیں پڑی تھی کہ ہریانہ میں چوبیس گھنٹہ کے اندر چار لڑکیوں کی وحشت ناک عصمت دری اور قتل کی خبر آ گئی۔ یہ سوال ایک بار پھر ہمارے ذہن کو جھنجھوڑ گیا کہ ہندوستان خواتین کے لیے اتنا غیر محفوظ اور بے رحم ملک کیوں ہو گیا ہے؟ جب اس پورے ملک نے نربھیا کیس کے خلاف متحد ہو کر ناراضگی ظاہر کی تھی تو امید کی ایک شمع پیدا ہوئی تھی کہ اس ملک میں خواتین کے لیے بہتر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی، لیکن بدقسمتی سے ان کے لیے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے ہیں۔ اب تقریباً روزانہ اخباروں میں ایک چھوٹے سے باکس یا کالم میں عصمت دری کی خبر ہوتی ہے اور عصمت دری پر رپورٹنگ بس ایک خبر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب نابالغ اور چھوٹی چھوٹی بچیوں سے عصمت دری کی خبر بھی اس ملک کے شہریوں کو پریشان نہیں کرتی۔ یہ ملک خواتین پر ہو رہے ان دہشت ناک جرائم کے تئیں ایک بے حس نیند کی آغوش میں سو چکا ہے۔ اس ملک میں عورت اور مرد آزادی کے برابری کے حقدار تھے، عورتوں نے بھی آزادی کی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ نہ صرف انگریزوں کے خلاف لڑ رہی تھیں بلکہ ملک کی متعدد دقیانوسی روایات اور مذہبی شدت پسندی سے بھی نبردآزما تھیں۔ لیکن چونکہ اس وقت ہمارے سماج میں بدلاﺅ اور ترقی کی ایک پرجوش خواہش تھی، اس لیے عورتوں کا تمام قیود کو توڑ کر باہر نکلنے کی بہت زیادہ مخالفت نہیں ہوئی، حالانکہ وہ تب بھی ایک ساتھ دو محاذ پر جدوجہد کر رہی تھیں ایک گھر پر اور دوسرا سامراجیت کے خلاف۔

آج، آزادی کے 70 سال بعد بھی خواتین گھر پر آزادی حاصل کرنے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ ایسا نہیں کہ چیزیں بالکل نہیں بدلیں، خواتین میں تعلیمی اصلاح دیکھنے کو ملا ہے، لیکن تعلیم کے تئیں ایک طرح کی بے یقینی اب بھی موجود ہے اور اسے فروغ ہی دیا جا رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2015 میں 3.7 ملین لڑکیوں نے پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ دیا۔ تعلیم حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ غریبی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی 21.9 فیصد آبادی خط افلاس کے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس لیے لڑکیوں کے لیے حالات مزید مشکل ہو جاتے ہیں۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق 82.14 فیصد مرد خواندہ تھے جب کہ خواتین کا یہ فیصد محض 65.46 رہا۔ آل ڈیولپمنٹ انڈیکس میں 128 ممالک میں ہندوستان 105ویں مقام پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ سبھی سماجی، ذہنی اور تعمیری رکاوٹوں کا حل نکالتے ہوئے خواتین اور بچیوں کو تعلیم بہ آسانی دستیاب ہو، اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

آج ہمارے ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے کئی قوانین بھی ہیں، مثلاً انسداد چائلڈ میریج قانون 2006، جہیز مخالف قانون 1961، اسپیشل میریج ایکٹ 1954، ہندوستانی طلاق قانون 1969، انڈیسینٹ ریپریزنٹیشن آف ویمن ایکٹ 1971، دفاتر میں خواتین کے جنسی استحصال کے خلاف قانون 2013، قومی خواتین کمیشن ایکٹ 1990 وغیرہ۔ اس کے علاوہ شہری خواتین دھیرے دھیرے بیدار ہو رہی ہیں، ان کا لباس جدید اور فیشن پر مبنی بھی ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ سب سطحی تبدیلیاں ہیں۔ مزدوری میں خواتین کی شراکت داری پر مارچ 2017 کی عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 19.6 ملین خواتین نے 05-2004 سے 12-2011 تک اپنا کام چھوڑا۔ ان میں سے 53 فیصد دیہی خواتین تھیں۔ 2017 میں نیتی آیوگ نے جو تین سال کا ایکشن ایجنڈا ’ڈرافٹ‘ ریلیز کیا اس میں ہندوستانی معیشت میں خواتین کی سرگرم شراکت داری پر زور دیا گیا ہے۔ صرف 27 فیصد ہندوستانی خواتین کام کررہی ہیں، یہ فیصد برکس ممالک میں سب سے کم ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ خواتین میں اعلیٰ تعلیم ان میں زیادہ فیصلہ لینے کی صلاحیت کا غماز نہیں ہے۔ یعنی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھی وہ خود اپنے فیصلے کے لیے آزاد نہیں۔

بدقسمتی سے شہری خواتین کو جو بھی آزادی ملی ہے وہ ان کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہوئی ہے۔ اب انھیں دو محاذ پر زندگی سنبھالنی ہوتی ہے اور دونوں ہی محاذ پر وہ لگاتار دقیانوسی نظریات اور جنسی تفریق سے نبردآزما ہوتی رہتی ہیں۔ بے شک ہندوستانی جمہوریت میں خواتین کے لیے بہت کچھ بدلا ہے، لیکن وہ ایک بات جس کے بدلنے سے خواتین برابری کا درجہ حاصل کر سکیں گی، اب بھی پہلے کی طرح ہی ہے۔ میں جس کی بات کر رہی ہوں وہ ہے سماج کی ذہنیت۔ صارفیت اور گلوبلائزیشن کے بڑھتے اثرات میں عورت کو ایک ’شئے‘ کے طور پر پیش کرنے اور دیکھنے کا نظریہ بڑھا ہے۔ ذات، مذہب اور فرقہ کے جھگڑوں میں جکڑے ہمارے سماج نے ابھی مرد و عورت کے برابری کے راستے پر چلنا بھی شروع نہیں کیا ہے۔ ایک عورت کی’عزت‘ کو مردوں کی بالادستی والے سماج کے وقار کا اتنا ضروری حصہ بنا دیا گیا ہے کہ اس کے آزادی سے سوچنے پر بھی پابندی ہے۔

ہمارا سماج ایک زبردست بیماری کے دور سے گزر رہا ہے۔ خواتین ’برابری‘ کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ روایات پر عمل کریں۔ ایک سطح پر انھیں ایک شئے کی طرح دیکھے جانے کی سوچ کو فروغ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف انھیں ’شئے‘ سے زیادہ کچھ سمجھا بھی نہیں جاتا۔ انھیں دیویوں کی طرح پوجا جاتا ہے، لیکن مندر میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ انھیں تعلیم دی جاتی ہے (کم سے کم متوسط گھرانوں میں) لیکن اس سے امید نہیں کی جاتی کہ وہ ایک حد سے آگے بڑھے گی یا اپنی خواہش سے شادی جیسے فیصلے بھی لے گی۔ ایک ’آزاد‘ خاتون کی تعریف تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا استحصال بھی ہوتا ہے۔

ملک کے کسی بھی شہری تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوان سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ اس ملک میں خواتین کو برابری کا درجہ ملا ہوا ہے اور دراصل کچھ جگہ تو ان سے بہتر سلوک ہوتا ہے۔ یہ اسی سماج کا نوجوان ہے جہاں خواتین کے خلاف ہو رہے جرائم میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں خواتین کے خلاف ہو رہے جرائم دو گنے سے بھی زیادہ بڑھے ہیں۔

کچھ لوگوں کی یہ دلیل ہو سکتی ہے کہ ہمیں اب ان جرائم کا پتہ چلنے لگا ہے کیونکہ اب عورتیں ان جرائم کی رپورٹ کرنے لگی ہیں اور اب وہ ان جرائم کے خلاف آواز اٹھانے لگی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب تو یہ بھی ہوا کہ ابھی ایسی بہت سی خواتین ہیں جو ان جرائم کو خاموشی سے برداشت کررہی ہیں، ان کے خلاف نہ تو آواز اٹھا پا رہی ہیں نہ ہی ان کی رپورٹ کروا پا رہی ہیں۔ یعنی حالات اس سے کہیں زیادہ سنگین ہیں جتنا ہمیں معلوم پڑ رہا ہے۔

آج پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے ریزرویشن پر ہو رہے شور و غل اور بحث کے درمیان حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان میں عام خواتین کے لیے آزادی اور برابری کی زندگی تو دور کی بات، ایک عام محفوظ زندگی بسر کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

Published: 26 Jan 2018, 3:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 26 Jan 2018, 3:10 PM IST