آجکل ایک بار پھر لو جہاد کا موضوع سرخیوں میں ہے۔ البتہ اس بار یہ سیاست دانوں کے درمیان گرماگرم بحث کا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی اس کے نام پر عوام کے ایک خاص طبقے کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ بلکہ اب اسے دوسرا رنگ دیا جا رہا ہے اور اس کو مزید خطرناک بنا کر پیش کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس کی مبینہ اور نام نہاد خطرناکی اور سنگینی کو خفیہ ایجنسیوں یا قانونی اداروں کے توسط سے پیش کرنے کی سعی کی جا رہی ہے۔ در اصل مخصوص قسم کے سیاست دانوں کو اسے بہر حال زندہ رکھنا ہے تاکہ ’’داشتہ بکار آید‘‘ کے مصداق انتخابات میں اسے پھر کیش کرانے کی کوشش کی جائے۔
اس وقت جو معاملہ سب سے زیادہ خبروں میں ہے اور کافی دنوں سے ہے وہ ہادیہ اور شفین جہاں کا ہے۔ 24 سالہ ہادیہ کا پرانا نام اکھیلا ہے۔ وہ کیرالہ کے ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے اپنے مسلم دوستوں کے توسط سے اسلام کا مطالعہ کیا، قرآن کو پڑھا، سمجھا اور پھر اس نے قبول اسلام کر لیا۔ وہ ایک ہومیوپیتھ ڈاکٹر ہے۔ قبول اسلام کے بعد خلیج میں ملازمت کرنے والے ایک مسلم نوجوان شفین جہاں سے جو کہ اپنے وطن کیرالہ آیا ہوا تھا، اس کی شادی ہو گئی۔ لیکن اس کو بعض طاقتوں کی جانب سے لو جہاد کے طور پر پیش کیا گیا۔ چونکہ شفین خلیج میں برسوں سے ملازمت کرتے رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی وہیں سکونت پذیر ہیں اس لیے اسے آئی ایس سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اخباروں میں اس کیس کے سلسلے میں جو کچھ شائع ہوا ہے اس کے مطابق اکھیلا یا ہادیہ کے والد اشوکن کو اس کے قبول اسلام پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انھیں فکر اس بات کی ہے کہ وہ ان کی واحد اولاد ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شفین کے ساتھ دوسرے ملک سدھار جائے اور وہ اپنی واحد اولاد سے جدا ہو جائیں۔ اسی لیے انھوں نے عدالت میں اس شادی کے خلاف درخواست داخل کی۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا اور اس نے قومی تحقیقاتی ایجنسی کو اس کیس کی جانچ کا ذمہ سونپ دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کیرالہ ہائی کورٹ نے مئی میں اس شادی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اب شفین جہاں نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی ہے کہ اس کی بیوی کو اس کے حوالے کیا جائے۔ لیکن فی الحال اس کی امید کم ہے کیونکہ این آئی اے اس بات کی جانچ کر رہی ہے کہ کہیں یہ معاملہ لو جہاد کا تو نہیں اور اس کا کوئی تعلق دہشت گرد گروپوں سے تو نہیں۔ اس درمیان ہندوستان میں زیادہ دن رہنے کی وجہ سے شفین جہاں کی خلیج کی ملازمت ختم ہو گئی ہے۔
Published: 11 Oct 2017, 7:44 PM IST
ہادیہ عدالت کے حکم سے اپنے والدین کے پاس ہے لیکن اس نے حضرت عمر فاروق کی بہن کی مانند یہ اعلان کر دیا ہے کہ اسے دنیا کی جو سب سے بڑی نعمت مل گئی ہے وہ اس سے پھرنے والی نہیں ہے۔ کیرالہ کی حکومت نے اس سلسلے میں ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی نے عدالت کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ این آئی اے کے ذریعے اس معاملے کی جانچ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لو جہاد کا کیس نہیں ہے۔ اس معاملے میں کیرالہ کے ایک مسلم ادارے کو ہدف بنایا جا رہا ہے جو اسلام قبول کرنے والوں کو سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ لیکن وہ کسی کو مذہب اسلام قبول کرنے کو نہیں کہتا۔ ہاں جب اسے قبول اسلام سے متعلق تمام دستاویزات پیش کی جاتی ہیں تب وہ تعاون کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ ہادیہ کی ایک مسلم دوست کے والد کو بھی جہاں قبول اسلام کے فوراً بعد ہادیہ قیام پذیر تھی، نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ ان کو حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ جبکہ اس معاملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ اب یہ بحث بھی چل پڑی ہے کہ کیا کوئی عدالت کسی کی شادی کو جو کہ جبراً نہیں بلکہ دونوں کی مرضی سے ہوئی ہو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہی سوال کیرالہ ہائی کورٹ سے پوچھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ کون سا رخ اختیار کرتا ہے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر این آئی اے نے اپنی رپورٹ میں یہ کہہ دیا کہ یہ لو جہاد کا معاملہ ہے تو فرقہ پرست قوتوں کے ہاتھ میں ایک بڑا ہتھیار آجائے گا۔
اسی درمیان روزنامہ میل ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق کیرالہ کی دو ہندو خواتین نے این آئی اے کو بتایا ہے کہ ان کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا پھسلایا گیا اور لالچ دیا گیا۔ ان دونوں میں سے ایک کا نام اتھیرا Athira اور دوسری کا Athira Nambiar ہے۔ ان دونوں نے یہ تو کہا ہے کہ انھیں لالچ دیا گیا لیکن اس معاملے میں کوئی بھی بات واضح نہیں ہے۔ این آئی اے کے ایک اعلی عہدے دار نے کہا کہ دونوں نے ہی لالچ دینے کی بات کہی ہے لیکن دونوں نے ہی اس سے انکار کیا ہے کہ ان پر قبول اسلام کے لیے کوئی دباؤ ڈالا گیا۔ اس اتھیرا نے جس کا مسلم نام عائشہ رکھا گیا تھا اور جو اب دوبارہ ہندو مذہب میں داخل ہو گئی ہے، بتایا کہ وہ ذاکر نائک کی تقریروں کو سن کر اسلام کے قریب آئی اور پھر اس نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا۔ جبکہ دوسری اتھیرا ایک مسلم نوجوان کے ساتھ بھاگ گئی اور پھر اس نے اپنا مذہب تبدیل کرکے اس سے شادی کر لی۔ اخبار نے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں معاملات میں پاپولر فرنٹ کا ہاتھ ہے۔ خیال رہے کہ پاپولر فرنٹ کیرالہ کی ایک بڑی مسلم تنظیم ہے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ اس کے نظریات میں انتہاپسندی ہے۔ بعض ایسے معاملات میں بھی اس کا نام آیا ہے جن سے سماجی ہم آہنگی خراب ہوئی ہے۔ پاپولر فرنٹ کی سیاسی شاخ ایس ڈی پی آئی یعنی سوشک ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہے۔ یہ پارٹی کیرالہ کے علاوہ دہلی میں بھی سرگرم ہے۔ چند روز قبل اس پر پابندی لگائے جانے کی بات سامنے آئی تھی جس پر پارٹی نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔ اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی بات اور انصاف کی بات کرنے کی وجہ سے اس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہر حال مذکورہ دونوں معاملات میں پاپولر فرنٹ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے۔ کیرالہ پولس نے مشتبہ لو جہاد سے متعلق 92 معاملات این آئی اے کے سپرد کیے ہیں جن میں سے 32 پر این آئی اے نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے اور ان معاملات کے بارے میں کیرالہ پولس سے مزید تفصیلات طلب کی ہے۔
اسی درمیان ایک اور سنسنی خیز معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ معاملہ ہے انیس اور شروتی کا۔ یہ بھی کیرالہ ہی سے متعلق ہے۔ 24 سالہ شروتی اور 25 سالہ انیس کنور میں ہم جماعت تھے۔ دونوں میں محبت ہوئی اور دونوں نے شادی کر لی۔ شادی کے بعد شروتی کے والدین نے عدالت میں حبس بیجا کا مقدمہ دائر کر دیا۔ شروتی عدالت میں پیش ہوئی اور عدالت نے اسے انیس کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ لیکن اس کے بعد شروتی کے والدین اسے زبردستی اٹھا لائے اور اسے کوچی کے نزدیک شیو شکتی یوگا ودیا کیندرمیں بند کر دیا۔ یہ کیندر مسلمان ہو چکے ہندووں کی گھر واپسی کے پروگرام کرواتا ہے۔ شروتی نے الزام عاید کیا ہے کہ جب کیندر کے ذمہ داروں نے اسے ہندو مذہب دوبارہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور اس نے اسلام سے پھرنے سے منع کر دیا تو اس پر مظالم توڑے گئے۔ اب انیس نے عدالت میں اپیل دائر کی ہے کہ شروتی کو اس کے والدین کی حراست سے آزاد کروایا جائے اور اسے اس کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے۔ اس معاملے پر منگل کے روز جب کیرالہ ہائی کورٹ میں بحث ہو رہی تھی اور شروتی کے والدین کے وکیل نے اسے لو جہاد کا معاملہ بتایا تو عدالت نے سخت لہجے میں کہا کہ ہر معاملے میں لو جہاد کی بات مت کرو۔
دریں اثنا ایک عیسائی ہیلپ لائن نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ لو جہاد صرف ہندووں کے خلاف نہیں چل رہا ہے بلکہ عیسائیوں کے خلاف بھی چل رہا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس پر 19 اکتوبر کو سماعت ہوگی۔ قابل ذکر ہے کہ یہ عیسائی ہیلپ لائن جو کہ کوچی میں ہے، رنجیت ابراہم تھومس نامی ایک عیسائی نے قائم کی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تھومس بی جے پی کے اقلیتی سیل کا لیڈر ہے۔ اس سے صاف ہو جاتا ہے کہ اس معاملے کو مزید سنگین بنانے کے لیے اسے عیسائیوں کے خلاف لو جہاد بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ یہ سارے معاملے کیرالہ ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی مشاہدین کے مطابق چونکہ بی جے پی نے کیرالہ میں اپنا گڑھ بنانے کی کوششیں شروع کی ہیں اس لیے وہ اس ریاست میں فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول بنانے کے لیے لو جہاد کا سہارا لے رہی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
پڑھیں لو جہاد سے متعلق خبریں...
مبینہ لو جہاد: کیرالہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کاجائزہ لے گا سپریم کورٹ
Published: 11 Oct 2017, 7:44 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ <a href="mailto:contact@qaumiawaz.com">contact@qaumiawaz.com</a> کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 11 Oct 2017, 7:44 PM IST