اسرائیل اور فلسطین کے مابین کوئی جنگ یا کسی قسم کی جھڑپیں نہیں ہو رہی ہیں، بلکہ یہ صرف ایک ملک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور دوسرے سماج کے لوگوں کو اپنی طاقت کا احساس دلا رہا ہے۔ اسرائیل ایسا اس لئے کر رہا ہے تاکہ وہ پوری دنیا کو اور خاص طور سے عرب دنیا کو اپنی طاقت کا احساس دلاسکے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے فضائی حملوں میں اب تک 126 فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے اور تقریباً ایک ہزار لوگوں کو زخمی کر دیا ہے۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
اسرائیل کے یک طرفہ فضائی حملے جاری ہیں اور غزہ میں جہاں لوگ شہید ہو رہے ہیں، وہیں اسپتالوں میں زخمیوں کے علاج کے لئے جگہ نہیں بچی ہے۔ غزہ کی کثیر منزلہ عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور یہ بے گھر لوگ بچے کچے سامان کے ساتھ نئے ٹھکانوں کی تلاش کر رہے ہیں جہاں وہ اپنی عقل کے حساب سے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
جس طرح اسرائیل اور فلسطین کی فوجی طاقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ویسے ہی وہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں زبردست فرق ہے۔ غزہ میں جہاں غریبی چیخ چیخ کر بولتی دکھائی دیتی ہے ویسے ہی اسرائیل کے ہر شہر میں لوگ وہ زندگی بسر کرتے ہیں جس کا تصور مشرق کے کئی بڑے ممالک تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس سب کے باوجود اسرائیل کے لوگ خوف میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہاں کےعوام پر نہ صرف فوجی تربیت لازمی ہے بلکہ وہاں پر کسی غیر یہودی کے جانے پر کتنی طرح کی سیکورٹی پابندیاں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ڈرے سہمے رہنا وہاں کے عوام کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
آیئے اصل مدے پر بات کرتے ہیں۔ سو سال پہلے برطانیہ ایک طاقت ور ملک تھا اور اس نے اپنی طاقت اور اثر کا استعمال کرتے ہوئےاقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کے دو ٹکڑے کر کے ایک حصہ یہودیوں کو دے کر دنیا کی یہودی آبادی پر احسان کر دیا تھا۔ یہودی جن کا پوری دنیا میں اپنا کوئی ملک نہیں تھا ان کے لئے یہ ایک بڑا تحفہ تھا اور وہ بھی اس وقت جب وہ جرمنی میں ہولوکاسٹ سے گزر چکے تھے۔ یہودیوں کو جیسے ہی اقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطین کا ایک حصہ ملا ویسے ہی انہوں نے اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کر دیا۔ عرب جو فلسطین میں اکثریت میں تھے، انہوں نے اقوام متحدہ کے اس فیصلہ کو قبول نہیں کیا اور سفارتی سطح سے لے کر زمینی سطح پر مخالفت شروع کر دی، لیکن یہودیوں نے جس خطے پر اپنی خود مختار ریاست کا اعلان کیا تھا اس کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی اس لئےعربوں کو ہر سطح پر ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
یہودیوں نے اس کے بعد جو حکمت عملی تیار کی اس میں پہلے تو امریکی معیشت پر قبضہ تھا پھر عرب ممالک میں تقسیم کرکے وہاں کی فوجی اور اقتصادی طاقت کو کمزور کرنا تھا۔ 1967 میں اسرائیل کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ عرب کمزور ہوگئے ہیں اور وہ خود فوجی اعتبار سے مضبوط ہو گیا ہے۔ اوپر سے اسے امریکہ جیسے ملک کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ کو بھی اس سےدو فائدے تھے ایک تو وہ چاہتا تھا کمزور عرب ممالک جو اس کے حق میں ہیں، کیونکہ پھر وہ ان سے مدد طلب کریں گے اور مدد کی آڑ میں وہ وہاں کی معیشت یعنی تیل پر پوری طرح قبضہ کر لے گا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب بھی ہو گئے۔ 1967 میں چھ دن کی جنگ میں عربوں کو شکست دے کر اسرائیل نے یروشیلم پر پورا قبضہ کر لیا، جس کو اقوام متحدہ نے ایک بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا تھا اور اس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا کیونکہ یہ شہر دنیا کے تینوں بڑے مذاہب کے لوگوں کے لئے یعنی یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مذہبی اعتبار سے بہت اہم تھا۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
اسرائیل امریکہ کی ایما پر یہ سب کچھ کرتا رہا اور پوری دنیا میں اس کے خلاف مظاہرہ بھی ہوتے رہے۔ ان مظاہروں کی ناکامی نے اسرائیل کو مزید طاقت ور بنایا اور اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان مظاہروں کی پشت پر بھی اسرائیل ہی ہوتا تھا تاکہ ان مظاہروں کی ناکامی کی صورت میں اس کی طاقت میں مزید اضافہ ہو۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
اسرائیل نے یروشیلم پر قبضہ تو کر لیا ہے لیکن اس کو یہ احساس ہے کہ یہاں پر یعنی بیت المقدس میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اس لئے اس کو پوری طرح سے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا جا سکتا، دوسرا اس کو یہ احساس ہے کہ یروشیلم عیسائی مذہب کے لئے بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ حضرت عیسی کی پیدائش یہیں ہوئی تھی، تیسرا اسرائیل کے چاروں طرف مسلم عرب آبادی ہے اور وہ کب تک ان کو آپس میں لڑ وا کر خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اس لئے وہ ان کے ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ ہے، خود یہودیوں کی اسرائیل اور پوری دنیا میں آبادی بہت کم ہے اس لئے وہ اسرائیل میں آبادی کے تناسب کو بھی ذہن میں رکھتا ہے، اس کو یہ بھی احساس ہے کہ یہودیوں میں افزائش نسل میں زبردست گراوٹ ہے۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
اس لئے اب اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ کےساتھ وہ عرب ممالک کی معیشت کو بھی اپنا غلام بنا لے اس کے لئے اس نے ٹرمپ کے دور میں عرب حکومتوں سے اپنی شرطوں پر دوستی شروع کی اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے شروع کیے۔ اس کا مقصد عرب ممالک میں پیچھے یعنی اقتصادی غلامی کے راستے سے قبضہ کرنا ہے۔ اس سارے عمل میں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کا اسرائیل پورا استعمال کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان کی تقلید باقی عرب ممالک بھی کر رہے ہیں۔ فلسطین کو وہ پوری طرح کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں کی بڑھتی آبادی اس کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ کیوں کہ وہ اپنی کم آبادی کو لے کر بہت خوفزدہ ہے جس کی وجہ سے وہ ان خطوں کو اپنے ملک کے ساتھ ضم بھی نہیں کر سکتا۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
سیاسی عدم استحکام کی ایک وجہ ہے لیکن اپنے بڑے منصوبہ کے تحت اسرائیل نے فلسطین پر یہ حملہ کیا ہے تاکہ وہ راکٹ داغنے والےکمزور حماس کو اپنے بڑے دشمن کے طور پر پیس کرے اور ان کی گردن حسب سہولت کبھی بھی مروڑ سکے۔ یہودی ریاست کے قیام کے لئے ایک تقسیم اقوام متحدہ کر چکا ہے اور اب اپنی ریاست کو مضبوط کرنے کے لئے یہودی فلسطین کو کئی سایسی قووتوں میں تقسیم کر نے کی کوشش میں ہے۔
کل اسرائیل کے تاریخی پس منظر پر بات کریں گے۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 May 2021, 6:11 PM IST