سماجی

شکر ہے عدلیہ کا ضمیر ابھی زندہ ہے...سہیل انجم

شکر ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کا ضمیر ابھی کسی حد تک زندہ ہے۔ ورنہ موجودہ مرکزی حکومت کل کے بجائے آج ہی ہندوستان کے مکمل اور عملی طور پر ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کر دے

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی 

شکر ہے کہ ہندوستانی عدلیہ کا ضمیر ابھی کسی حد تک زندہ ہے۔ ورنہ موجودہ مرکزی حکومت کل کے بجائے آج ہی ہندوستان کے مکمل اور عملی طور پر ہندو راشٹر ہونے کا اعلان کر دے۔ حالانکہ اب ہندو راشٹر کے قیام میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اب آنکھوں کی شرم بھی ختم ہو گئی ہے۔ ورنہ کون سا ایسا کام ہے جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے میں مانع ہو۔ آئین و دستور کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ قانون و انتظام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ اقلیتوں اور غریبوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ پورے ملک پر ہندو اکثریت کی بالا دستی قائم ہو گئی ہے۔ اگر کوئی اپوزیشن لیڈر کچھ بولنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کے خلاف انتقامی کارروائی کی جاتی ہے اور اس طرح اس کا منہ بند اور اس کی زبان خاموش کر دی جاتی ہے۔

Published: undefined

حکومت نے جمہوریت کہ چوتھے ستون کہے جانے والے میڈیا یا ذرائع ابلاغ کو پہلے ہی اپنا بے دام غلام بنا لیا ہے۔ بیشتر میڈیا ادارے حکومت کی خوشامد میں سجدوں پر سجدے کیے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت رکوع کا اشارہ کرتی ہے تو وہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا حکومت اور پولیس کے غلط کاموں کی حمایت اور طرفداری کو اپنا فرض منصبی تصور کرتا ہے۔ جب بھی مرکزی حکومت یا ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کی جانب سے کوئی عوام مخالف کام کیا جاتا ہے تو میڈیا اس کی ستائش میں زمین و آسمان کے قکابے ملانے لگتا ہے۔

Published: undefined

گزشتہ دنوں جب شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری میں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور ہندووں کی دیگر تنظیموں کی جانب سے ہنومان جینتی کے موقع پر شوبھا یاترا نکالی گئی تو جب تک فساد نہیں ہو گیا یاترا کے ذمہ داروں کو چین نہیں آیا۔ جب دو دو یاتراؤں میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا اور مسلمانوں نے تمام قسم کی اشتعال انگیزی کو برداشت کر لیا اور ایک پتہ بھی نہیں ہلا تو پھر ایک منصوبے کے تحت ایک اور جلوس نکالا گیا۔ حالانکہ جلوس نکالنے کے لیے پولیس کی اجازت درکار ہوتی ہے لیکن اس تیسرے جلوس کے لیے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ اس کا اعتراف خود دہلی کے پولیس کمشنر راکش استھانہ نے کیا ہے۔

Published: undefined

جب ہندووں کے جلوس کے خلاف سنجیدہ اور پر امن طبقات کی جانب سے احتجاج کیا جانے لگاتو دہلی میونسپل کارپوریشن میں اکثریت رکھنے والی بی جے پی کے لیڈر تلملانے لگے اور انھوں نے مقامی مسلمانوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ریاستی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا نے مشرقی کاپوریشن کوآدیش دے دیا کہ چونکہ دنگا بنگلہ دیشیوں اور روہنگیاوں نے کیا ہے اور انھوں نے سرکاری زمینوں پر نجائز قبضے کر رکھے ہیں لہٰذا انھیں سبق سکھانے کے لیے ناجائز قبضوں کو ہٹایا جائے۔ پھر کیا تھا اگلے ہی روز کارپوریشن کے بلڈوزر وہاں پہنچ گئے اور صبح نو بجے سے ہی انہدامی کارروائی شروع کر دی گئی۔ جبکہ وہاں نہ بنگلہ دیشی ہیں اور نہ ہی روہنگیا ہیں۔

Published: undefined

ذرائع کا کہنا ہے کہ انہدامی کارروائی دوپہر دو بجے سے ہونے والی تھی لیکن چونکہ پولیس کو معلوم ہو گیا تھا کہ کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس لیے انہدامی کارروائی قبل از وقت شروع کر دی گئی۔ اسی درمیان سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کپل سبل، دشینت دوے اور پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ بلڈوزر رکوائے جائیں کیونکہ وہ غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے حکم صادر کیا کہ انہدامی کارروائی روک دی جائے۔ عدالت اگلے روز اس معاملے پر سماعت کرے گی۔ لیکن ا س کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے تک بلڈوزر چلتے رہے۔

Published: undefined

اس کے بعد مذکورہ وکلا نے چیف جسٹس کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جس پر انھوں نے سختی سے اس حکم پر عمل کروانے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد ہی کہیں جا کر انہدامی کارروائی روکی گئی۔ اس درمیان مسلمانوں اور ہندووں کے متعدد مکان اور دکان نیست و نابود کر دیے گئے۔ ایسی کئی دکانیں بھی توڑ دی گئیں جو بیس اور تیس سال پرانی تھیں اور جو کاپوریشن کی جانب سے الاٹ شدہ تھیں۔ جب اس پر احتجاج ہونے لگا تو کہا گیا کہ ناجائز قبضے ہٹائے گئے ہیں کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ یہ بالکل کھلی ہوئی بات تھی کہ مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔

Published: undefined

اس انہدامی کارروائی پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ دو رکنی بینچ نے کہا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے گی کہ عدالتی حکم کے باوجود انہدامی کارروائی کیوں چلتی رہی۔ اسے کارپوریشن کی ہٹ دھرمی نہیں کہا جائے گا تو اور کیا کہا جائے گا کہ اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی دھجیاں اڑائیں اور اس کو تار تار کیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کے نزدیک عدالت کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اگر عدالت نے انہدامی کارروائی پر دو ہفتے کے لیے ہی سہی روک نہیں لگائی ہوتی تو اب تک جانے کتنے غریب بے گھر ہو گئے ہوتے۔

Published: undefined

عدالتی سرگرمی کا مظاہرہ اس وقت بھی ہوا جب سپریم کورٹ نے لکھیم پور میں گاڑی سے کسانوں کو ہلاک کر دینے کے معاملے کے کلیدی ملزم مرکزی وزیر اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کی ضمانت خارج کر دی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اسے ضمانت دے دی تھی اور وہ اتنا بڑا جرم کرنے کے باوجود جیل سے باہر آگیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے متاثرین کے حقوق پر کوئی توجہ نہیں دی آشیش مشرا کی ضمانت خارج کر کے اسے ایک ہفتے کے اندر خود سپردگی کا حکم دیا۔ پیر کے روز ایک ہفتہ مکمل ہو رہا تھا اور اس نے ایک روز قبل یعنی اتوار کے روز خود کو جیل کے حوالے کر دیا۔ اگر سپریم کورٹ نے سختی نہ دکھائی ہوتی تو وہ اب بھی آزاد گھوم رہا ہوتا۔

Published: undefined

اسی طرح ممبئی کی ایک عدالت نے بی جے پی کی ایم پی نونیت رانا اور ان کے شوہر ایم ایل سے روی رانا کو چودہ روز کے لیے عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا۔ دراصل دونوں میاں بیوی نے مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے کے گھر ماتوشری کے باہر ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اعلان کے بعد شیو سینا کے کارکنوں نے ان دونوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا جس کے بعد پولیس نے ان دونوں کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ انھیں ممبئی کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انھیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔

Published: undefined

عدالت کی حق گوئی کا ایک اور نمونہ اس وقت ملا جب دہلی پولیس نے سریش چوانکے نامی ایک نام نہاد صحافی کے بارے میں کہا کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ یعنی نفرت انگیز تقریر نہیں کی ہے۔ حالانکہ چوانکے اور اس کے دیگر ساتھیوں نے دہلی کے جنتر منتر پر ایک پروگرام کے دوران مسلمانوں کے خلاف انتہائی شرانگیزی کی تھی اور انھیں گالیاں دی تھی۔ لیکن جب دہلی کی پولیس نے اس معاملے میں عدالت میں جواب داخل کیا تو چوانکے کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اس نے کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی۔ جبکہ اس سلسلے میں کئی ویڈیوز وائرل ہیں۔

Published: undefined

اس پر عدالت نے دہلی پولیس کی خوب خبر لی اور کہا کہ اس نے کیسے کہہ دیا کہ ہیٹ اسپیچ نہیں دی گئی ہے۔ اس نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ دوبارہ حلف نامہ داخل کرے اور اپنا دماغ اور ذہن لگا کر حلف نامہ تیار کرے۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ پولیس نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ غلط ہے اور اسے اپنے حلف نامے میں چوانکے کے خلاف الزام طے کرنا چاہیے اور اس نے جو اشتعال انگیزی کی تھی اس کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ بہر حال یہ چند مثالیں تھیں۔ ورنہ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر عدالت اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھے تو جانے کیا ہو جائے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined