گزشتہ سال نومبر میں ایک ویب سائٹ سے گفتگو کے دوران گوری لنکیش نے کہا تھا کہ جب انھیں کسی دوسرے نے فون پر مطلع کیا کہ وہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہی ہیں تو انھیں اس بات پر حیرانی ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ انٹرنیٹ سے بہت زیادہ جڑی ہوئی نہیں ہیں اس لیے تعجب ہوا۔ لیکن جب انھوں نے وہ سارے ٹرینڈ دیکھے تو وہ ششدر رہ گئی تھیں۔ یہ سوچ کر انھیں ہنسی بھی آ رہی تھی کہ محض ہتک عزتی کے ایک مقدمے نے انھیں ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انھیں ہتک عزتی کے ایک معاملے میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔
اب تقریباً 9 مہینے بعد منگل کی شام ان کا نام پھر سے ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ gaurilankesh#، یہ وہ ہیش ٹیگ ہے جس میں غصہ ہے، غم ہے، ناراضگی ہے، جمہوریت کے قتل کی اطلاع ہے، نااتفاقی کی صدائیں ہیں، جمہوری اقدار کے ختم ہو جانے کا احساس ہے، تعصب کے شیطان کا خوفناک عروج ہے، صحافتی پیمانوں اور حقوق انسانی کی صدا بلند کرنے کی ہمت ہے۔ یہ ہیش ٹیگ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حقوق انسانی کی بات کرنا اور فرضی انکاؤنٹر کے خلاف بولنا کسی کو کس طرح ماؤازم ٹھہرا دیتا ہے۔ یہ ہیش ٹیگ اس بات کی بھی علامت ہے کہ ہندوتوا اور فرقہ پرستی کی تنقید کتنا سنگین جرم ہے۔ اور ساتھ ہی یہ ہیش ٹیگ بتاتا ہے کہ کس طرح آپ ہندوؤں سے نفرت کرنے والے قرار دیے جاتے ہیں جب آپ ذات کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم اور پولرائز کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ہیش ٹیگ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اس دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں بھکت ایم ایم کلبرگی کے قتل کا استقبال کرتے ہیں اور ڈاکٹر یو آر اننت مورتی کی موت کا جشن مناتے ہیں۔ یہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب بھکت اپنے سربراہ اور ان کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کی آواز ’خاموش‘ کر دیتے ہیں۔
gaurilankesh# میں یہ پیغام بھی ہے کہ اعتدال پسند اور لیفٹ نظریات کے صحافی و صحافت مستقل بھکتوں کے نشانے پر ہے۔ یہ اس بات کا بھی پتہ دیتا ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی پر کتنا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
گوری لنکیش نے 2005 میں ہفتہ وار اخبار ’گوری لنکیش پتریکے‘ کے نام سے جاری کیا۔ اسی ہفتہ وار میں 2008 میں شائع ایک خبر نے انھیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا اور انھیں قید و بند کی سزا سنائی گئی۔ فیصلے کے بعد انھیں ضمانت اور عدالت عظمیٰ میں اپیل کے لیے وقت مل گیا۔ جس خبر کے لیے انھیں سزا سنائی گئی اس میں لنکیش نے لکھا تھا کہ بی جے پی کے تین کارکنان نے ایک سنار کو ایک لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ لنکیش کے مطابق یہ خبر کرناٹک کے دوسرے اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی لیکن مقدمہ صرف اُن پر کیا گیا۔
گوری لنکیش نے ایک ویب سائٹ سے بات چیت میں کہا تھا کہ یہ خبر بی جے پی کے اندرونی ذرائع کے حوالے سے لکھی گئی تھی۔ لنکیش کے مطابق دراصل یہ مقدمہ ان کی خبر کے سبب کم اور ان کے سیاسی نظریہ کے سبب زیادہ تھا۔ یہاں بتانا لازمی ہے کہ ’گوری لنکیش پتریکے‘ حکومت مخالف مضامین کے لیے مشہور ہے اور سماجی کارکن کے ناطے گوری لنکیش کی فکر و تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ہفتہ وار میں اشتہار شائع نہیں ہوتے ہیں اور اس کا خرچ گوری لنکیش کی دوسری اشاعتوں سے نکالا جاتا ہے۔ ان کی دیگر اشاعتوں میں ادبی اور مقابلہ جاتی امتحانات کی کتابیں شامل ہیں۔
بہر حال، گوری لنکیش کے خلاف مقدمہ میں سب سے دلچسپ بات یہ رہی کہ جس سنار کے بارے میں خبر تھی اس نے عدالت کے باہر بی جے پی لیڈروں سے سمجھوتہ کر لیا۔ لیکن عدالت نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی۔ ویب سائٹ سے بات چیت میں گوری لنکیش نے کہا تھا کہ آج کے دور میں جب بھی کوئی حقوق انسانی کی بات کرتا ہے تو اسے ماؤنواز قرار دے دیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’لیکن صحافی اور ایک آزاد شہری ہونے کے ناطے ان کا فرض ہے کہ وہ ہر غلط کام کے خلاف آواز بلند کریں۔‘‘ انھوں نے بتایا تھا کہ اس مقدمہ میں قصوروار قرار دیے جانے کے بعد وہ کس طرح ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہی تھیں اور انھیں اس پر ہنسی آئی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ وقت آ گیا ہے جب مجرمانہ ہتک عزتی کے قانون کو ختم کر دینا چاہیے۔
Published: 06 Sep 2017, 12:50 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Sep 2017, 12:50 PM IST