سماجی

آہ علامہ اسرار جامعی!... سہیل انجم

یہ مضمون اس وقت لکھا گیا تھا جب 2014 میں انھوں نے اپنے اخبار ”پوسٹ مارٹم“ کا دوبارہ اجرا کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا ”علامہ اسرار جامعی کا پنرجنم“۔ مضمون بلا تبصرہ پیش خدمت ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 
طنز و مزاح کے عظیم شاعر علامہ اسرار جامعی کا بتاریخ 4 اپریل بروز ہفتہ صبح کے وقت دہلی میں انتقال ہو گیا۔ اس وقت پوری اردو دنیا میں طنز و مزاح کے میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ یہ مضمون اس وقت لکھا گیا تھا جب 2014 میں انھوں نے اپنے اخبار ”پوسٹ مارٹم“ کا دوبارہ اجرا کیا تھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا ”علامہ اسرار جامعی کا پنرجنم“۔ مضمون بلا تبصرہ پیش خدمت ہے:

علامہ اسرار جامعی کا پنرجنم ہو گیا۔ قارئین چونکیں نہیں، بات سچ ہے۔ لیکن یہ جنم ”پوسٹ مارٹم“ کی شکل میں ہوا ہے۔ یعنی انھوں نے اپنے اخبار پوسٹ مارٹم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔ جب کسی کی ولادت ہوتی ہے تو ا س کا جثہ بہت مختصر ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ قد کاٹھی میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم بھی مختصر جثے کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ اس کی قد کاٹھی میں بڑھوتری ہوگی یا نہیں یا یہ پستہ قد ہی رہے گا اس کا اندازہ کچھ مہینوں (شماروں) کے بعد ہوگا۔ A-4 سائز کی چار شیٹس کو موڑ کر ڈبل کر دیں تو جو صورت بنے گی وہی پوسٹ مارٹم کی صورت ہے۔ اسرار جامعی نے خود اس کو ”مُنِّی اخبار“ لکھا ہے۔ یعنی 23/36 سائز میں سولہ صفحات۔ مگر اخبار میں صفحہ نمبر نہیں دیئے گئے ہیں۔ اس کی وجہ اس کے ”چیپ ایڈیٹر“ نے یہ بتایا کہ چونکہ کسی بھی مضمون کا کوئی بقیہ نہیں اٹھایا جائے گا اس لیے صفحہ نمبر دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

Published: undefined

یوں تو یہ بہت مُنّا سا اخبار ہے لیکن اس کا مزاج اس تیکھی مرچ جیسا ہے جس کو کھاتے ہی آدمی اچھل پڑے۔ یہ اخبار بھی اپنے آپ میں وہی اثرات رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ نام کی مناسبت بھی اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کے بیشتر مضامین اور خبروں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ پہلے صفحہ کے پہلے مضمون سے لے کر آخری صفحہ کے آخری مضمون تک اسرار جامعی اپنی پوری تب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی خبر دیکھیے جس کا عنوان ہے ”بھارتیہ جھگڑا پارٹی (بی جے پی) اب بھارت میں جھگڑا فساد نہیں ہونے دے گی۔ اب ہر ایک جھگڑالو کو چن چن کر سزا دی جائے گی“۔

Published: undefined

یہ خبر یوں شروع ہوتی ہے: ”ہزاروں سال پرانی نئی دلی: ہمارے چغل خور خصوصی جناب گڑبڑ شیطانی نے اطلاع دی ہے کہ بھارتیہ جھگڑا پارٹی کی ایک خصوصی میٹنگ دلی کے ہائڈنگ پارک میں منعقد ہوئی۔ جس میں بھارتیہ جھگڑا پارٹی کے ورشٹ نیتاؤں نے بھاگ لیا۔ رام مندر کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ شری گرم جوشی نے کہا کہ رام کے نام سے جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا اب اس کا اتنا منتھن نہ کیا جائے کہ لوگ رام رام چھی چھی کہنے لگیں۔ ہم لوگوں نے بڑی جوکھم سے یہ گدی حاصل کی ہے۔ اسے بچائے رکھنا ہم لوگوں کا کام ہے۔ مہاراجہ اشوک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے اپنے ننانوے بھائیوں کو قتل کر کے پٹنہ کے اگم کنواں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد بودھ دھرم کا پرچارک بن کر ساری دنیا میں بودھ دھرم کا پرچار کیا۔ آج ان کا نام اور ان کا کام ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسی طرح ہم لوگوں کو بھارت میں رام راجیہ کی استھاپنا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا راج اور بھارت کی لاج دنیا میں قائم رہے“۔

Published: undefined

اسی طرح ایک اور خبر ہے کہ ملت غیر متحدہ کو نیست و نابود کر دیں گے۔ غیر مسلم اقوام متحدہ کی تازہ قرار داد۔ اس خبر میں اگر مزاح ہے تو زبردست طنز بھی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں نے ماضی میں بڑے بڑے سائنس داں اور مفکرین پیدا کیے ہیں۔ مگر اب آپس میں لڑنا جھگڑنا ان کا شیوہ ہو گیا ہے جس سے ساری دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ دنیا کو بچانے کے لیے متحد ہو کر اس قوم کو نیست و نابود کرنا ہے تاکہ دنیا میں امن و امان قائم ہو سکے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اسرار جامعی نے مذاق مذاق میں کتنی گہری بات کہہ دی ہے۔

Published: undefined

ایک خبر ہے جامعہ نگر میں ڈاک خانہ، تھانہ۔ ڈاک خانہ کو کراس کر کے کاٹ دیا گیا ہے۔ یعنی اب جامعہ نگر کی شناخت اس کے تھانے سے ہوتی ہے۔ ایک کالم ہے ”خبروں کی خبریں“۔ اس میں بڑی دلچسپ خبریں ہیں۔ جیسے: گودھرا کا واقعہ رد عمل تھا (نریندر مودی)۔ ا س کے نیچے لکھا ہے کہ رد عمل نہیں ردی عمل تھا (جتیندر مودی)۔ ایک خبر ہے :مودی کا پتلہ جلایا گیا (جدید خبر)۔ اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ابھی جلاؤ یا کبھی جلاؤ جلنا ان کا مقدر ہے (بے خبر)۔ دریا میں کشتی ڈوب گئی (سہارا)۔ اس کے جواب میں ہے کہ کشتی دریا میں نہیں ڈوبے گی تو کیا دریا گنج کی سڑک پر ڈوبے گی (بے سہارا)۔

Published: undefined

ایک کالم ”اقوال مس زریں“ ہے جس کے تحت گدگدانے والے اقوال درج ہیں۔ ایک ہندوستانی ایم پی کو جو تنخواہ اور الاؤنس ملتے ہیں اس کی تفصیل دی گئی ہے۔ لیکن اسے یوں پیش کیا گیا ہے کہ ایم پی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اب میں تو اتنی تنخواہ لوں گا اور اتنے الاؤنس لوں گا اور یہ یہ سہولتیں لوں گا۔ اسی تسلسل میں پارلیمنٹ کی دیواروں پر کندہ اقوال زریں کے نمونے بھی دیئے گئے ہیں۔

Published: undefined

اس مُنّی اخبار میں شعری ذوق والوں کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ ان کی مشہور نظم” دلی درشن“ تو شامل ہی ہے اس کے علاوہ ہر صفحے پر اوپر اور نیچے ایک ایک شعر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ قطعات بھی ہیں۔ اور ان تمام اشعار اور قطعات سے اسرار جامعی کی پوری شخصیت ہلکوریں مارتی ہے۔ اس سے پہلے جب وہ پوسٹ مارٹم نکالتے تھے تو اس شعر کی تضمین اوپر ہی درج ہوتی تھی کہ ”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام، وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا“۔ اس اخبار میں بھی ا س کی تضمین درج ہے اور وہ ہے ”ہم جھانک بھی لیتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام، وہ جھونک بھی دیتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا“۔

Published: undefined

کچھ تحریفات ملاحظہ فرمائیں: الٹی یعنی متلی ہو گئی کچھ نہ دوا نے کام کیا، دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا۔ میر کے تینوں مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب ان نے تو، قشقہ کھینچا گرجا، جا کر کعبہ کو پرنام کیا۔ دادا گیری حد سے گزری بندہ پرور کب تلک، ایک مسجد تو گرائی اور گروائیں گے کیا۔ عریانی مستور کا آیا ہے زمانہ، جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو۔ جناب شیخ سے وہ اس لیے آنکھیں لڑاتی ہے، نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔ سبق پڑھ تو ذالت کا خباثت کا شرارت کا، لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی سیاست کا۔ میں پی کے کیا کرتا ہوں ہر گھونٹ پہ توبہ، کرتا ہوں گناہ پھر بھی گنہگار نہیں ہوں۔ پیدا ہوئی پولیس تو ابلیس نے کہا، لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے۔

Published: undefined

اخبار کی لوح کے اوپر درج ہے ”پسند نہ آئے تو قیمت واپس“۔ آخری صفحہ پر بھی پرمزاح تحریروں کے نمونے ہیں۔ آم کے آم گٹھلی کے دام کے زیر عنوان لکھا ہے کہ پوسٹ مارٹم کا کوئی بھی شمارہ پڑھنے یا پڑھوانے کے بعد جب چاہیں نیا شمارہ مفت لے لیں۔ اس طرح اگر اس اخبار کو ”تتیا مرچ“ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

Published: undefined

اس اخبار کی تیاری وہ ایک عرصے سے کر رہے تھے۔ خاکسار کے پاس بھی اکثر و بیشتر آکر مشورہ کرتے۔ گزشتہ دنوں صبح ہی صبح جب وہ ہمارے غریب خانے پر اچانک پدھارے تو میں چونک گیا۔ دل میں خیال آیا ہو نہ ہو ان کا اخبار چھپ گیا ہے۔ سلام کلام کے بعد جب کہنے لگے کہ چائے پلائیے یا نہ پلائیے پانچ روپے دیجیے۔ میں نے کہا کیا آپ کا اخبار چھپ گیا۔ انھوں نے پانچ روپے کا سکہ پکڑنے کے بعد اپنے ”کر کملوں“ سے اخبار کی ایک کاپی پردان کی اور کہا کہ ”اگر پسند نہ آئے تو پیسہ واپس لے لیجیے گا یا اس کے بدلے میں دوسرا شمارہ لے لیجیے گا“۔ پسند نہ آنے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ میں نے کہا کہ اس اخبار کی قیمت آپ دس روپے مانگتے یا پچاس روپے مانگتے تو میں وہ بھی دے دیتا۔ شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں اخبار بیچ رہا ہوں بلیک نہیں کر رہا ہوں۔ بلیک میں لینا ہو تو ہاکر کے پا س جائیے یہاں تو قیمتاً ہی ملے گا۔

Published: undefined

اس اخبار کی جتنی پذیرائی کی جائے کم ہے۔ اس کی کم جثامتی پر نہ جایا جائے بلکہ اسے نکالنے کے پیچھے اسرار جامعی کے جذبے کو دیکھا جائے اور اس کی انفرادیت اور ندرت کو سامنے رکھا جائے۔ کاش یہ اخبار مزید ضخامت کے ساتھ اور پابندی کے ساتھ نکلنے لگے۔

Published: undefined

علامہ اسرار جامعی کی ایک نظم

اردو پہ مری آکے عجب وقت پڑا ہے

ظالم ملک الموت بھی اردو کا ہے دشمن

چن چن کے بڑے شاعروں کے پیچھے پڑا ہے

اس نے نہ خداوند سخن میر کو بخشا

غالب سے سخنور کو بھی مغلوب کیا ہے

اقبال کا اقبال نہ دیکھا گیا اس سے

اکبر کا ستمگر نے گلا داب دیا ہے

واہی کو بھی دنیا سے اٹھا لے گیا کمبخت

اک رہ گیا اسرار جو نظروں پہ چڑھا ہے

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined