صغیر افراہیم
مرد اولوالعزم اور جامع کمالات وصفات اور سب سے بڑھ کر محسنِ ہندوستان سرسید احمد خاں کے دو صد سالہ یومِ پیدائش کے موقع پر ہم بڑے تزک واحتشام سے ایک عظیم الشان جشن کا اہتمام کریںگے۔ یقین جانیے، کل سے کہیں زیادہ آج، اس جشن کے انعقاد کی ضرورت اور اہمیت ہے۔ ویسے بھی مختلف بہانوں سے اپنے محسن کو یاد کرنا ہمارا خوش گوار فریضہ ہے اور اس لیے بھی کہ سرسید کی گوناگوں خدمات ہمارے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہیں۔ حالیؔ نے ٹھیک ہی کہاہے:
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
ترے احسان رہ رہ ہر کر سدا یاد آئیں گے ان کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
سرسید کے عظیم احسانات کے پیش نظر،عرصہ سے محبانِ وطن کے ایک بڑے حلقے کی دلی آرزو ہے کہ سرسید کوبطور خراجِ عقیدت ’بھارت رتن‘ پیش کیا جائے اور اِس کے لیے یہ موقع نہایت مناسب ہے، جب کہ بعض بہی خواہانِ وطن کایہ کہنا ہے کہ اُن کی قدآور شخصیت ’بھارت رتن‘ کے اعزاز سے بہت بلند ہے۔ تاہم اِس خطاب کے حق میں رائے رکھنے والے حضرات یہ جوازپیش کرتے ہیں کہ اُن کے قائم کردہ ادارے کے جلیل القدر فرزندگان خان عبدالغفار خاں اور ڈاکٹر ذاکر حسین اِس باوقار اعزاز سے سرفراز ہوچکے ہیں،تو بانئ دانش گاہ کو کیوں کر محروم رکھا جائے۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
بات اعزاز واکرام کی نہیں بلکہ اُس قدآورشخصیت کی ہے، جس کی عظیم الشان خدمات کے سبھی قائل ہیں تو ایک اعترافی اقدام سے چشم پوشی کیوں ؟ سخت سے سخت تنقیدی زاویۂ نگاہ کاحامل کوئی ہندوستانی کیا اِس حقیقت کو فراموش کرسکے گا کہ سرسید انتہائی پُرآشوب دور میں مطلع ہند پر ایک عہد ساز ہستی بن کر وارد ہوئے اور ہر نظریے اور رُجحان پر غالب آگئے۔ تجدیدِ فکر اور احیاء ملّی کی زبردست کوششیں ایک طرف، بحیثیت مجاہد تحریک آزادی، کیا ہم سرسید کو فراموش کرسکیں گے۔ وہ سرسید جس نے پنجاب یونیورسٹی کے احاطے میں لارڈ لٹن کی اسپیچوں کی دھجیاں اڑادیں اور وہ جانباز برٹش آگرہ دربار سے برہم ہوکر اٹھ کھڑا ہوا کہ دربار میں ہندوستانیوں اور انگریزوں کی کرسیاں برابر درجہ پر نہ تھیں۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
بھارت رتن کا اعزاز، اس نابغۂ روزگار شخصیت کی تکریم کے لیے لازم نہ سہی، لیکن قومی، وطنی اور بین الاقوامی سطح پر محض اعترافِ صداقت کے لیے صرف ضروری نہیں بلکہ بہت ضروری ہے۔ یہ ہندوستان کے وقار کا سوال ہے، ہندوستان کی عظیم ترین روایات کی تائید وتوثیق کا سوال ہے اور وطن عزیز کے ضیا پسندوں کے افتخار کا سوال ہے، جس کی تکمیل وتعمیل ہونی ہی چاہیے۔ سرسید نے کیا خوب کہا تھا: ’’کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی قومی تاریخ کو بھول جائے اور اپنے بزرگوں کی کمائی کھودے‘‘۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
سرسید کی دُورر سی اور دُور بینی کے مظاہر حد درجہ کرشماتی اور حیرت انگیز ہیں۔ آج بھی ان کرشموں کو اگر دانش حاضر پیش کرے تو بلاشبہ حیرت انگیز نتائج برآمد ہوں گے، مگر وائے رے ناکامی! یہ دوربینی آئی کہاں سے۔ انھوں نے استعماری اور قہرمانی قوتوں سے ٹکّر لینے کے لیے مزاحمتی اور مدافعتی طریقِ کار نہیں بلکہ مفاہمتی انداز بصورت مسابقانہ اختیار کیا، مفاہمت میں فرار کا راستہ ترک کیا اور عزیمت کا راستہ منتخب کیا۔ راستے کی آزمائشوں کو اپنی دانش ورانہ صلح جوئی کے ذریعہ حل کیا، تشدد کی جگہ عدم تشدد کی راہ کو اپنایا اور حاکمانِ وقت کو بغیر کسی تردد و تامل، ایک چنوتی دی کہ ہمیں باغی کہنا غلط ہے اور ثابت بھی کر دکھایا۔ اِس کے علاوہ اُن اسباب۱؎ کا تجزیہ کیا کہ جنھیں اگر پھر دوہرایا گیا تو ہندوستانی فی الواقعی باغی ہوجائیں گے۔ اس لیے ان اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی شدید ضرورت ہے۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
انھوں نے ایسا منطقی انداز اختیار کیا، جو محض عوام کے لیے ہی نہیں، فرنگیوں کوبھی متنبہ کرنے کا ایک زبردست آلۂ کار ثابت ہوا۔ اُس صاف گو، بے باک اور منصف مزاج حکیم نے ارض ہند کی منتشر بساط کو اپنی مفاہمت آمیز دانش وری سے ترتیب دیا، اس کو مربوط کیا اور وطن کی قومی توقیر کو سربلند کیا۔ سرسید نے اقوام ہند کو آگاہ کیا کہ ہندو، مسلمان دونوں کی عزتیں اور دونوں کاوقار در اصل ہندوستان کا وقار وافتخار ہے۔ 26؍جنوری 1889 کو امرتسر میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہندوؤں کی ذلت سے مسلمانوں کی اور مسلمانوں کی ذلت سے ہندوؤں کی ذلت ہے۔ پھر ایسی حالت میں جب تک یہ دونوں ایک ساتھ پرورش نہ پاویں، ساتھ ساتھ دودھ نہ پئیں۔ ایک ہی ساتھ تعلیم نہ پاویں، ایک ہی طرح کے وسائل ترقی دونوں کے لیے موجود نہ کیے جاویں، ہماری عزت نہیں ہوسکتی‘‘۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
مجھے کہنے کی اجازت دیجیے تو بغیر تامل عرض کروں کہ سرسید کو ’’بھارت رتن‘‘ کااعزاز دے کر ہم خود کو ہی معزز کریں گے اور مہان بھارت کو فی الواقعی اور مہان بنائیں گے۔ گم شدہ میراث کی بازیافت کا جذبہ سرسید کے یہاں شدت سے موجود ہے مگر جوش سے نہیں، ہوش کے ساتھ۔ سرسید نے مطالبات منوانے اور باعزت زندگی گزارنے کا جونسخہ استعمال کیا، اُس پر ہمارے سربرآوردہ قائدین نے عمل کیا اور وہ ایک تاریخ ساز کامرانی سے ہم کنار ہوئے۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
اب ایک فطری سوال قائم ہوتا ہے کہ سرسید کی سیاسی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، علمی، ادبی، تہذیبی اور صحافتی خدمات سے ہمارے عہد کے لوگ پوری طرح واقف کیوں نہیں ہیں؟ عالمی سطح کوجانے دیجیے، قومی سطح پر نئی نسل اُن سے کس حد تک واقف ہے، یہ ایک غور طلب لمحۂ فکریہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اتنے بڑے ملک میں سرسید کی خدمات کا دائرہ صرف علیگ برادری اور اُن سے وابستہ افراد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے؟ وہ بھی صرف ’سرسید ڈنر‘ تک۔ اس ضمن میں اس دائرے کی محدود ترین صورت میں ہم صرف اپنے ادارے کو ہی دیکھیں تو بانیِ درس گاہ کے روضہ پر 17؍اکتوبر کو علی الصباح ایصالِ ثواب کا جو منظر ہوتا ہے وہ آفتاب کی شعاعوں اور حرارت کے مطابق بدلتا چلا جاتا ہے۔ صبح سے ہی منتظمین کے پاس فری ڈِنر کارڈ کے لیے فون آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو شام تک جاری رہتا ہے۔ بقیہ ہلچل کیا، اور اس کاذکر کیا۔ محض رسم کی ادائیگی پر اختتام۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
سرسید تحریک کی افادیت اور عصر حاضر میں اُس کی معنویت کو کارگر بنانے کے لیے نیز سیدی مشن کے مزید بامعنی کامیابی کے لیے سخت محنت درکار ہے۔ ہندوستانی عوام خصوصاً نئی نسل سرسید کے کارناموں سے کس طرح واقف ہو، یہ آج کا اہم ترین سوال ہے۔ اس ضمن میں ’’بھارت رتن‘‘ کے اعزاز کو ’’سرسید تعارف‘‘ کی جانب ایک پیش قدمی کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ ایسی پیش قدمی کرنی چاہیے ورنہ سوالات باقی رہیں گے! 17؍اکتوبر ملک گیر سطح پر کیوں نہیں منایا جاتا؟ قومی سطح پر علمی مذاکرات، یا تعارفی ریلی یا جلسوں کا سرکاری سطح پر انعقاد کیوں نہیں ہوتا؟
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
ابھی چند دنوں پہلے ادارۂ ’تہذیب الاخلاق‘ میں ڈاکٹر راحت ابرار کے ساتھ ممبئی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے صدر اور مشہور صحافی ہارون رشید مرحوم کے سلسلے میں گفتگو ہورہی تھی۔ تین دہائی قبل کا ایک واقعہ زیر بحث تھا۔ موصوف ممبئی میں سرسید تقریبات کے انعقاد کے لیے ڈاکٹر مادھوری آرشاہ کو مدعو کرنا چاہتے تھے، جو اُس وقت ہندوستان میں واحد نسائی یونیورسٹی (SNDT) کی وائس چانسلر تھیں اور بعد میں یو۔جی۔سی۔ کی چیرمین ہوئیں، جب اُن سے ہارون رشید صاحب نے سرسید تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پُرخلوص دعوت پیش کی اور ان سے شرکت کی درخواست کی تو فوری طور پر وہ سرسید کو Recall نہیں کرسکیں تاہم تفصیل سُننے کے بعد اُن کی مداح ہوگئیں۔ اور بزبان شاعر فرمایا:
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
مظہرِ شانِ حسنِ فطرت تھا
معنیٰ لفظِ آدمیت تھا
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
باور ہو کہ اگر قومی حافظے سے سرسید کی آفتابی شبیہ کو تازہ کار کرنے میں مزید تاخیر ہوئی تو اِس میں شدید قصور ہمارا ہی ہوگا کہ ہم قومی حافظے کو تازہ کرنے میں مسلسل کوتاہی برت رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ اس کوتاہی کی سزا ہم پر یا ہماری آئندہ نسلوں پر وارد ہو۔ ذرا وسیع پس منظر میں 17؍اکتوبر کو دیکھنے کی کوشش کیجیے۔ کیا سرکاری اور غیر سرکاری ادارے سرسید تحریک کے کسی پہلو کے پیش نظر کچھ کرتے ہیں؟ اس یونیورسٹی کے سوا کہیں تعطیل کا اعلان ہوتا ہے یا کوئی رسمی پروگرام ہی قومی سطح پر برپا ہوتا ہے۔ مانیے کہ ساری غلطی اور لاپرواہی ہماری ہے۔ اتنا ہی نہیں کیا اُس دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اپنا حق ادا کرتا ہے؟ اگر کہیں کچھ ہوتا بھی ہے تو ایک محدود دائرے میں، جس سے ایک بات فوری طور پر ذہن میں آتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مزاج کے پیش نظر ابلاغ وترسیل کے لیے نئے زاویوں کے مطابق نئے منصوبوں سے کام لینا ہوگا۔ ایسے عوامی ذرائع کا استعمال کرنا ہوگا جن میں بچوں کی دلچسپی کے ایسے سامان ہوں کہ اُن کی قوتِ کشش سے بچے خود اِس جانب مائل ہوں، نوجوانوں کی نفسیات کے تعلق سے سوشل میڈیا میں آسان زبان میں مختلف پروگرام چلائے جائیں۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
ہم بحث ومباحثہ، انٹرویوز، چھوٹی چھوٹی نہایت دلچسپ ڈاکومینٹری فلموں اور ڈراموں وغیرہ کی مدد سے سرسید تحریک کو مقبول عام اور عالم گیر بناسکتے ہیں، مگر ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ سیدی اقوال کی سی۔ڈی بنوا کر اُس دن کسی نہ کسی ذریعے سے عوام تک پہنچانے کا بندوبست کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ آج وسائل اور ذرائع کی کمی نہیں، بس سرسید کے مشن اور پیغام کو جدید انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید اِس عمل سے ایک وسیع حلقے تک سرسید کے افکار ونظریات اور اُن کی بیش بہا خدمات مثبت انداز میں منتقل ہوسکیں۔ یہ کہنے سے کام چلنے والا نہیں کہ ’’دھوپ تھی، گئی آفتاب کے ساتھ‘‘ بلکہ عزم وہمت اور نئے تقاضوں کے ساتھ، سرسید افکار کو نگر نگر اور ڈگر ڈگر عام اور عالمگیر کرتے ہوئے قصرِ جمہوریت تک پہنچانا ہے۔ نئی ملکی فضا اور نئی سیاسی تحریکوں کے پیش نظر سرسید مفاہمت تھیوری کو مکمل ہوش مندی کے ساتھ برروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ خوشامد اور بزدلی سے نہیں، حکمت وتدبر کے ساتھ، مکمل درد مندی کے ساتھ ، ایوان سیاست کے دروازے پر بھی دستک دینے کا وقت پھر آگیا ہے:
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
ہوگا کسی فلک پہ وہ خورشید جلوہ گر
کہتے ہیں آفتاب کبھی ڈوبتا نہیں
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
بے شک ہمیں خود اپنااحتساب بھی کرنا چاہیے کہ ہم نے اس سلسلے میں اب تک کیا کیا ہے؟ کیا ہم نے اردو کے علاوہ ہندی، انگریزی یا کسی اورہندوستانی زبان میں سرسید کو ماہر تعلیم کی حیثیت سے پیش کیا؟ سرسید نے بین المذاہب مکالمے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس سلسلے کو ہم نے آگے بڑھایا؟ یا اس کی بڑے پیمانے پر اشاعت وتشہیر کی؟ کیا سرسید کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل کوئی بڑا پروجیکٹ تیار کرکے ہم نے ان کے الگ الگ کارناموں کو الگ الگ جلدوں کی صورت میں محفوظ کیا! اور ملک کی دیگر زبانوں کی بات چھوڑئیے، ہندی بھاشا میں سرسید پر کتنی کتابیں منظر عام پر آئیں، اور نہیں آئیں تو کیوں؟ ایسی صورت میں صرف ایک چارہ کارہے اور ملک کے تمام باشندوں کا خوش گوار قومی فریضہ بھی ہے کہ قومی توقیر کی خاطر، حکومت پر نہایت حکمت عملی کے ساتھ دباؤ بنائیں اور تجویز پیش کریں کہ سرسید کے شایانِ شان، اُنھیں قدرومنزلت سے نوازا جائے، جو ملک وملت کے لیے بے حد مفید ہوگا۔ملکی سطح پر خلوصِ دل سے پیش جذبۂ عقیدت واحترام کا یہ مظاہرہ اور دوسرے عملی اقدامات، بلاشبہ قومی یک جہتی، رواداری اور مساوات کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
یہ سلسلہ یہیں نہیں رُکے گا بلکہ نئی نسل بغیر کسی تخصیص وتمیز کے سرسید کو زیادہ قریب سے پہچان سکے گی۔ حقائق سے بخوبی واقف ہوکر آنے والی نسل بہ بانگ دہل کہے گی کہ جب سرسید کے عہد کے غیر مسلم مصلحین، دانش ور اور مستشرقین ہی نہیں، بلکہ سرسید کے مداحوں کا ذکر نصابی کتابوں میں کثرت سے موجود ہے تو پھر سید والا گہر کی عہد ساز شخصیت کا ذکر اُن کے شایانِ شان کیوں نہیں ہوتا؟ اِس مقصد کو مؤثر اور معتبر انداز میں پوری طرح سے اُجاگر کرنے میں اگر ہم کامیاب ہوگئے تو سرسید کے تئیں یہی سب سے بڑا خراجِ تحسین ہوگا اور سرسید کی پیدائش کے جشن کو منانے کا مدلل اور موثر جواز بھی۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 Oct 2019, 2:45 PM IST
تصویر: پریس ریلیز