سماجی

طنز و مزاح: خراشیں، جدید سودیشی ریل... تقدیس نقوی

سنا ہے کچھ لوگ ٹرین میں طویل سفر کے باعث غذا نہ ملنے کے سبب بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر بھی گئے ہیں۔ غریبوں کی یہ بڑی بری عادت ہے کہ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے کہیں بھی مر جاتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جب یہ خبرآئی کہ کچھ بے سروسامان غریب الوطن مزدوروں کو لئے ملک کی ٹرین اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے جنگلوں میں بھٹکتی پھررہی ہے تو کسی کو بھی حیرت نہ ہوئی۔ نہ حکومت کو او نہ ہی عوام کو۔ حیرت ہوتی بھی آخر کیوں؟ ملک کی کون سی چیزآج کل بھلا پٹری پر چل رہی ہے جو اس ٹرین کی آوارہ گردی کا ہی ماتم کیا جاتا؟ دیکھا جائے تو یہ حال ہی میں شروع کئے گئے "آتم نربھرتا پروگرام" کی ایک بہترین مثال مانی جاسکتی ہے۔ سودیشی ریل کے سفرکا آغازمسافروں کی اجتماعی مرضی سے اور اس کا روٹ بھی مسافروں کی اکثریت سے طے پاتا ہے۔ اسی لئے اس بھٹکی ہوئی ٹرین کو جدید سودیشی ریل کہنا مناسب ہوگا جس کا ایندھن مسافروں کے چندے سے اورجس کے سفرکا رخ اسکے ڈرائیورکی پسند اورموڈ کے اعتبار سے طے کیا جاتا ہے۔ اس ٹرین کی بے راہ روی اور اس کے عدم تعین منزل سے ہماری نیشنل ریلویز کی لاتعلقی کا برسرعام اظہار کرنا ہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ اک سودیشی پنچایتی ریل کا بہترین نمونہ تھی۔ سودیشی ریل کے اس کامیاب تجربہ کے بعد اب آئندہ بھی اس طرح کی مزید ٹرینیں مفاد عامہ کی خاطر سودیشی طریقہ کار پر چلائی جانے کی قوی امید بندھ گئی ہے جہاں ہر چیز کا اختیار مکمل طور سے مسافروں اور ریل کے ڈرائیور کو دیا جائے گا اورقومی ریلوے کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہوگا۔ اس سے عوام میں آتم نربھرتا کا احساس بڑھے گا۔ اس لئے اس ٹرین کے سوفیصد سودیشی اور آتم نربھر ہونے میں شک کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ملک میں آج کل چل رہے اچھے دنوں میں شک کرنے لگے۔

Published: undefined

شاید اسی لئے ہماری قومی میڈیا نے اس خبر پر ذرا سا کان نہیں دھرا۔ ویسے بھی ہماری قومی میڈیا کے پاس اتنا فضول وقت بھی نہیں ہے کہ وہ چند ہزار فاقہ کش مزدوروں کی خاطر ان ٹرینوں کا پیچھا کرتی پھرے جن کو اپوزیشن اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ کچھ ٹی وی چینل تو دن رات عوام کو یہ بات باور کرانے میں مصروف ہیں کہ کورونا کے عوام میں پھیلنے کے اوقات لاک ڈاؤن کے اوقات کے حساب سے طے پاتے ہیں۔ کچھ زی وقار ٹی چینل کیونکہ خود کورونا کے جال میں پھنس گئے ہیں اس لئے ان کے پاس ان سب بے کار کی خبروں کو کور کرنے کا نہ وقت ہے اور نہ ہی دلچسپی۔

Published: undefined

سنا ہے کچھ لوگ ٹرین میں طویل سفر کے باعث غذا نہ ملنے کے سبب بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر بھی گئے ہیں۔ غریبوں کی یہ بڑی بری عادت ہے کہ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے کہیں بھی مر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی توان لوگوں کومرنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ وہ نہ جگہ دیکھتے ہیں اور نہ وقت۔ اب دیکھیں کیا ٹرین یا ریلوے اسٹیشن بھی کوئی مرنے کی جگہہ ہے؟ اگر یہ لوگ تھوڑا انتظار کرلیتے تو کیا قیامت آجاتی۔ گھر جاکر مرتے تو ان کا کریا کرم وقت پر ہوجاتا۔ گزشتہ دنوں زندگی سے اکتائے ہوئے کچھ مفلوک الحال اوارہ گردوں نے حکومت کی جانب سے مہیا کی گئی بہترین رہائشی اور غذائی سہولتوں اور پناہ گاہوں کو دھتکارتے ہوئے ٹرین کی پٹری پرکھلے آسمان کے نیچے آرام کرنے کی ٹھان لی اور حکومت کے کسی ادارے کو کوی اطلاع دیئے بغیر ہی وہیں پٹریوں کے درمیان سو گئے۔ سنا ہے وہ لوگ کئی دنوں کے بھوکے پیاسے بھی تھے اس لئے کمزوری کے باعث گہری نیند اگئی ہوگی۔ ظاہر ہے گہری نیند میں آتی ٹرین سے کس طرح بچ پاتے۔ اب ان کی موت سے حکومت کا بھلا کیا لینا دینا؟ حکومت تو پہلے ہی ان مزدوروں کو ان ٹرینوں سے ان کے ابائی وطن واپس بھیجنے کے خلاف تھی۔ حکومت کا یہ احسان کیا کم تھا کہ اس نے ان غریبوں کو اپنی جیب خاص سے ٹرین کے ٹکٹ مفت دلوائے۔ جب ٹکٹ میں کھانے کا پیکج شامل نہیں تھا تو ٹرین میں کسی کے بھوکا مرجانے کا الزام ریلوے کے سر ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟

Published: undefined

یوں بھی ان مفلس مزدوروں کو ہندوستانی ریلوے کا شکر گزارہونا چاہیے کہ وہ انھیں مفت میں ملک کے ان حصوں کی سیر کرا رہی ہے جہاں ان کا اپنی پوری زندگی میں پہنچنا ناممکن تھا۔ بھئی اگر حکومت کے خرچہ پر یہ غریب لوگ بھی کچھ دن سیرسپاٹا کرلیں گے تو کونسا قومی خزانہ میں سوراخ ہوجائے گا۔

ابھی ہم نیشنل ٹی وی کے کسی چینل پر ان بھٹکی ہوئی ٹرینوں کی خبر ڈھونڈنے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ دیکھا کہ ہمارے میر صاحب آج کا تازہ اخبار آٹھائے چلے آرہے ہیں جس کے اندر کے صفحہ کے مختصر سے کالم میں یہ چھوٹی سی خبر چھپی تھی۔ ہم نے بھی بغیر توقف کیے ہوئے میر صاحب سے سوال کر ہی ڈالا:

Published: undefined

"جناب ذرا یہ فرمایئے کہ آخر یہ ٹرینیں کیوں اس طرح آوارہ گردی کرتی پھر رہی ہیں جبکہ غریب مسافروں کے لئے ان کی اپنی منزلوں پر پہنچنا انتہائی ضروری تھا۔ یہ ٹرینیں نہ ہوئیں وہ ہوائی جہاز ہوگئے جنھیں موسم کی خرابی یا کسی ٹیکنکل خرابی کے باعث کسی بھی انجان ایر پورٹ پر فورسڈ لینڈنگ کرنا پڑتی ہے یا پھر کوئی ایسی کار جس کا ڈرائیور کسی غیرعلاقہ میں سفر کرتے ہوئے کوئی غلط ٹرن لینے کے باعث اپنی منزل سے بھٹک جائے۔"

Published: undefined

"دراصل ہوا یوں کہ ٹرین کا ڈرائیور ان جگہوں سے مسافروں کو بچاتا ہوا ٹرین کو لے جارہا تھا جو کورونا سے متاثر ریڈ زون تھے۔ بس اسی کوشش میں وہ ٹرین لے کرکہیں کا کہیں نکل گیا۔ یہ بھی خبر ہے کہ ڈرائیور نے مسافروں کی شدید گرمی میں درگت بنتے دیکھ کر آڑیسہ کا رخ کیا جہاں اس وقت وہاں آئے ہوئے طوفان کے سبب شدید بارش ہورہی تھی۔ تاکہ ان غریب مسافروں کو کچھ تو گرمی سے راحت نصیب ہو۔ دو مہینے سے مسلسل پیدل چلنے والوں کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ انھیں تھوڑی ریل کی سواری بھی کرا دی جائے اور ملک کی کچھ نئی جگہیں بھی دکھادی جائیں۔" میر صاحب شاید ہمارے سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہوکر آئے تھے۔

Published: undefined

"مگرجناب اس ذرا سی لاپرواہی سے چند دن کا سفر ہفتوں کا ہوگیا" ہم نے بھی میر صاحب کو آسانی سے پیچھا چھڑانے نہیں دیا۔

"بھئی یہ جدید سو دیشی ریل تھی کوئی وہ بلٹ ٹرین تھوڑی ہے جو ہم نے جاپان سے خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے جس کی یہ شرط ہے کہ اس کی ملکیت تو ہماری رہیگی مگر چلائی وہ جاپان میں ہی جائے گی کیونکہ اس کو ہمارے ملک میں چلانے کی تیاریاں مکمل کرنے کے لئے مزید ساٹھ سترسال درکار ہوں گے۔"

"میر صاحب دن بہ دن پٹری سے اترتی ہوئی ملک کی معیشیت کے پیش نظر کیا وہ بلٹ ٹرین ہمارے ملک کی پٹری پر کبھی دوڑ سکے گی؟ "ہم نے میر صاحب کو موجودہ معاشی بحران کی یاد دلاتے ہوئے پوچھا۔

Published: undefined

"ایک بار جب ٹرین پٹری سے اترنے لگتی ہے تو اسے دوبارہ پٹری پہ واپس لانے کے لئے پہلے اسے پوری طرح پٹری سے اتارا جاتا ہے۔ پھر اسے واپس پٹری پہ لانے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ بس یہی حال ملک کی معیشیت کی ٹرین کا ہے جو روز بروز پٹری سے اتاری جا رہی ہے۔ جب یہ پوری طرح پٹری سے اترجائے گی جس کو اتارنے کے لئے ہماری پوری مشینری رات دن محنت کر رہی ہے تو پھر اسے واپس پٹری پر لانے کے لئے ساٹھ ستر برس کا وقت درکار ہوگا۔ جس کی تیاریاں شروع کی جاچکی ہیں۔ فی الحال تو ہم آتم نربھر ہونے کے طریقہ دریافت کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کی شروعات اس جدید سودیشی ریل سے ہوچکی ہے۔ ویسے بھی کہاں وہ ودیشی بلٹ ٹرین اور کہاں ہماری سودیشی ریل۔" میر صاحب اپنا اخبار اٹھا کر چلتے بنے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined