شیو کی پوجا تقریباً دقیانوسی تصورات سے پاک ہے، اور بہت کم خرچیلی بھی۔ صاف پانی، آک، دھتورا مندار جیسے جنگلی پھول، بیر جیسا جنگلی پھل اور بیل پتہ... اس سے ہی شیو خوش ہو جاتے ہیں۔ نہ کوئی یگیہ (پوجا)، نہ ہی چھپن بھوگ (چڑھاوا) یا مخصوص پھولوں کی ضرورت۔ عقیدت اور انہماک ہی سب سے اہم ہے۔ تو پھر طَلا (سونا) سے آراستہ ’گربھ گرہ‘ (مندر کی پاکیزہ جگہ) کس کے لیے۔ محترمہ میک ایڈمس کا تبصرہ۔
Published: undefined
ایک باعقیدہ ہندو کی نظریں کاشی وشوناتھ مندر کے نئے طلائی اور بجلی کی روشنی میں نہائے ’گربھ گرہ‘ کو چاہے جتنی دیر ایک ٹک دیکھتا رہے، کچھ ہے جو دل کو کھٹکتا رہتا ہے۔ ہمارے دیوکُل (مندر) کے سب سے اہم دیوتا جنھوں نے دنیاوی خوشیوں کو ترک کر دیا ہے اور پہاڑ کی چوٹیوں میں مراقبہ کرنے والے شیو کے ’گربھ گرہ‘ کی سنجیدگی، اس کی رازداری کہاں غائب ہو گئی؟ جب سے یہ تعمیر نو ہوئی وشوناتھ دھام کی کئی کلو سونے سے مزین دیواریں رہ رہ کر کیمرہ کی روشنیوں سے چمک کر ٹی وی پردے کو ایک راج دربار جیسا تو بنا رہی ہیں، لیکن جیسا کہ ایک پرانے پجاری نے حال میں میڈیا میں کہا کہ یہ مذہب کی تجارت ہے، جس نے مندر کے علاقے کو مال بنا دیا ہے۔
Published: undefined
شیو کو یاد کریں تو پڑھی اور سنی داستانوں و قدیم روایتوں میں دیووں کے دیو شیو انصاف کے، معصوم جانوروں کے تئیں ہمدردی کے، اور یوگ وغیرہ کے ذرائع ہیں۔ دیووں کی دیو قامت شکل وشنو جو طرح طرح کی شکلوں میں مشہور ہیں، دنیاوی شان سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی پوجا کے طریقوں، ان کے بھوگ (چڑھاوے) اور ان کی سجاوٹ میں جھلکتا بھی ہے۔ لیکن شیو تو کام کے دشمن اور عیش و آرام سے دور ہی تصور کیے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، بھوتوں و جنونیوں سمیت مسانوں (گرد) میں لپٹے بھوت ناتھ بن کر گھومتے ہوئے کئی شکلوں میں وہ خوف پیدا کرتے ہیں۔ کیا ایسے دنیاوی خواہشات سے دور دیو کے لیے طلائی گربھ گرہ عجیب سا نظر نہیں آتا؟
Published: undefined
گربھ گرہ ہمارے مندروں کے فن تعمیر کے نظریے سے مندر کا پاکیزہ ترین اندرونی حصہ ہے، جہاں زندہ تصور کیے جانے والے دیو کا قیام ہو، جہاں مشرق-مغرب ملن کا قطب ہو، انتہائی توجہ سے نشان زد مقام پر بہت تیاری کے ساتھ اسے قائم کیا جاتا ہے۔ گربھ گرہ عظیم الشان مندر میں بھی ایک چھوٹا کمرہ ہوتا ہے جس میں صرف خاص پجاریوں کے طواف جتنی جگہ رکھی جاتی ہے۔ اس لیے پرانے شیو مندروں میں دیوتا کی زیارت صرف دروازے سے ہی ہوتی ہیں، اور پوجا کرنے والے اپنی پوجا کے سامان اندر کھڑے پجاریوں کو دے کر چڑھاوا پا کر الٹے پیروں چلتے ہوئے باہر آتے ہیں۔ عقیدہ ہے کہ اس وقت عقیدتمند دیوتا سے اپنی شناخت کے ساتھ نجات کا لمس حاصل کر مبروک ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
روایتی گربھ گرہ میں کوئی کھڑکی نہیں رکھی جاتی تھی۔ اس کے پیچھے کا فلسفہ یہ تھا کہ دنیاوی خواہشات سے بچا جائے۔ دراصل مندر کا باہری حصہ جہاں دیو اَپسراؤں (حسیناؤں)، گندھرو (دیوتا) اور دیگر نقاشی دیواروں پر موجود ہیں، وہ دنیاوی کام کی طرف کھینچتی ہیں۔ علاوہ ازیں مندر کا عالیشان صحن یا دالان جہاں پھول پھل وغیرہ چڑھائے جاتے ہیں یہ دنیاوی عناصر ہیں۔ نجات کا لمس حاصل کرنے کے بعد عقیدتمند ان دنیاوی چیزوں کی معرفت دنیاوی زندگی میں داخل ہوتا ہے۔ لیکن ان دنوں دنیاوی چمک کی رسائی سیدھے گربھ گرہ تک ہو گئی ہے۔
Published: undefined
وی وی آئی پی ہی نہیں، سیکورٹی اور ٹی وی کیمرے یا بجلی بلب کی جگمگاہٹ کچھ بھی نہیں چھوٹ سکتا۔ جو جگہ دنیاوی خواہشات کے معاملے میں سب سے دور، پاک و شفاف اور دنیاوی عناصر سے دوری کی علامت تھی، آج دنیاوی عناصر کی جیتی جاگتی مثال بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ تبھی تو ایک بزرگ پجاری کو میڈیا میں اس قدیم پاکیزہ مندر کی گلیوں کو مال کی طرح بنا دینے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا۔ وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے۔
Published: undefined
شیو کی پوجا تقریباً دقیانوسی تصورات سے پاک ہے، اور بہت کم خرچیلی بھی۔ صاف پانی، آک، دھتورا مندار جیسے جنگلی پھول، بیر جیسا جنگلی پھل اور بلوپتر... اس سے ہی شیو خوش ہو جاتے ہیں۔ نہ کوئی یگیہ (پوجا)، نہ ہی چھپن بھوگ (چڑھاوا) یا مخصوص پھولوں کی ضرورت۔ عقیدت اور انہماک ہی سب سے اہم ہے۔ تاریخی گرنتھ (صحیفہ) میں شیو کہتے ہیں کہ ان کی پوجا کے لیے کسی چڑھاوا، انعقاد، بھجن یا رسم کی ضرورت نہیں، ان کے مرید اس دن اُپواس (روزہ) کریں، یہی ان کے لیے بہتر عمل ہے۔
Published: undefined
یہ درست ہے کہ کاشی وشویشورناتھ مندر کو 19ویں صدی میں کچھ مواقع پر سونا چاندی عطیہ کیا گیا، لیکن راجہ رنجیت سنگھ نے جو ایک من سونا چڑھایا تھا، اس سے مندر کی چوٹی کو طلائی صورت دی گئی۔ گربھ گرہ کو سادہ، پرسکون اور انسانی سجاوٹ سے جھلمل نہیں بنایا گیا۔ یہی شیو کو محبوب ہے، یہی اس مندر اور اس کے دیوتا کی عظمت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس گربھ گرہ میں جو آئے، دنیاوی خواہشات اور لذت ترک کر کے آئے۔ تبھی نجات کا حقدار ہوتا ہے، یہی عقیدہ ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے:
چنا چبینا گنگا جل، جو دیوے کرتار،
کاشی کبہوں نہ چھوڑیے، وشوناتھ دربار۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined