عرب، امریکا اور یورپ کے متعدد ملکوں میں پیر کے روز رمضان کا چاند نظر آ گیا ہے جبکہ دنیا کے بقیہ ملکوں میں آج یعنی منگل کے روز چاند دکھائی دے گا، جس کے ساتھ ہی ایک ماہ کے روزے شروع ہو جائیں گے۔ یہ مسلسل دوسرا سال ہے جب کورونا وائرس کے بحران کے دوران مسلمان رمضان کے روزے رکھیں گے اور دیگر خصوصی عبادات انجام دیں گے۔
Published: undefined
بہت ساری بندشیں
کورونا وائرس کے انفیکشن کو قابو میں رکھنے کے مقصد سے بیشتر ملکوں نے مساجد میں نمازیوں کی آمد پر معمول کی گنجائش سے بیس تا تیس فیصد کمی نافذ کر دی ہے۔ مسجد میں آنے والے تمام لوگوں کے لیے ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ مساجد کے باہر بھیڑ کم کرنے کے مقصد سے روایتی افطاری اور سحری کے پروگراموں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
Published: undefined
اس بندش کی وجہ سے ایسے حاجت مند افراد کافی متاثر ہوں گے جنہیں رمضان کے دوران بالعموم افطار اور سحری بہ سہولت اور مفت میں دستیاب ہو جاتی تھی۔ تاہم متحدہ عرب امارات جیسے بعض ممالک نے غریب اور ضرورت مند افراد کو افطار ان کے گھروں تک پہنچانے کا نظم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بیشتر مذہبی علماء کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کی صورت حال کے مدنظر رمضان کے مہینے میں گھروں میں رہ کر ہی عبادت کرنا زیادہ محفو ظ رہے گا۔
Published: undefined
کیا آن لائن عبادت ممکن ہے؟
بعض عبادت آن لائن کی جاسکتی ہے۔ لبنان کے سیدہ شہر کی جامع مسجد کے امام اور سنی شرعی عدالت کے چیئرمین شیخ ابو زید کا کہنا ہے۔ ”اسلام میں عبادت کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ خطبہ یا تقریر ہے جو امام مقتدیوں کے لیے دیتا ہے۔ اسے آن لائن کیا جا سکتا ہے۔" انہوں نے تاہم کہا کہ دوسرا حصہ یعنی نماز کی ادائیگی اجتماعی طور پر کی جاتی ہے” اسے آن لائن یا کسی دور دراز علاقے سے ادا نہیں کی جا سکتی ہے۔"
Published: undefined
کارڈف یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز شعبے میں لکچرر منصور علی کہتے ہیں کہ بیشتر علماء ”ورچوول نماز کی کسی بھی صورت کی تائید نہیں کرتے۔" ان کا کہنا تھا۔ ”اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نماز کے دوران مقتدی کو ذاتی طور پر امام کے پیچھے ہونا ضروری ہے۔"
Published: undefined
اس فقہی اصول کی وجہ سے مصر اور سعودی عرب کے متعدد علماء نے فتوے دیئے ہیں کہ آن لائن عبادت جائز نہیں ہے اور موجودہ صورت حال میں اس کا حل یہ ہے کہ اپنے اعزہ و اقارب کے ساتھ اپنے اپنے گھروں پر ہی نمازیں ادا کریں۔
Published: undefined
کرفیوکے اثرات
بہت سے ممالک نے رمضان کے مہینے میں لاک ڈاون یا کرفیو نافذ کر دیا ہے یا اس میں توسیع کر دی ہے۔ عمان میں رمضان کے دوران رات نو بجے سے صبح سات بجے تک لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ مراکش میں بھی رات آٹھ بجے سے صبح چھ بجے تک کرفیو میں توسیع کر دی گئی ہے جب کہ ترکی نے ویک اینڈ تک کرفیو کو محدود کر دیا ہے۔ عراق میں بھی جزوی کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وہاں رات نو بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو رہے گا۔ جمعے کی نمازوں پر زیادہ بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
Published: undefined
ان پابندیوں کی وجہ سے بیشتر افراد اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ مل کر افطار اور سحری نہیں کرسکیں گے انہیں اپنے اپنے گھروں میں ہی محدود رہنا پڑے گا۔ اسی طرح وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی رات کے کھانے اور سحری کے لیے دعوتیں نہیں دے پائیں گے۔ ریستورانوں نے اجتماعی افطار کی تقریبات کے انعقاد کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، تاہم گھروں تک کھانا پہنچانے کی سہولت موجود ہوگی۔ ان پابندیوں کا ایک دوسرا اثر یہ ہوا ہے کہ آن لائن شاپنگ میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔
Published: undefined
کیا ویکسین سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟
اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یہی ہے کہ کیا ویکسین لگانے سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اردن کے مفتی اعظم شیح عبدالکریم خصوانیہ نے اس حوالے سے ایک فتوی جاری کر کے کہا ہے کہ کورونا ویکسین بھی دیگر ویکسین کی طرح ہے اور اسے لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ انہوں نے تاہم فتوے میں کہا ہے ”اگر کسی شخص کو ویکسین لگوانے کے بعد اس کا سائیڈ ایفکٹ مثلاً تیز بخار آ جائے اور وہ اس کے لیے دوائیں لیں اور روزہ توڑ دے تو اسے قرآنی احکام کے مطابق اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔"
Published: undefined
کویت کے وزارت اوقاف، سعودی عرب کے مفتی اعظم شیح عبدالعزیز الشیخ اور متحدہ عرب امارات کے محکمہ اسلامی امور اور اوقاف نے بھی اس فتوے کی تائید کی ہے۔ تیونس کے دارالافتا نے ایک بیان جاری کر کے شہریوں سے ویکسین لگوانے کی اپیل کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ اپنی اور دیگر لوگوں کی جان بچانے کے لیے احتیاطی اقدامات اٹھانا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے بلکہ یہ قومی ذمہ داری بھی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined