راجستھان پولس کے ایک جوان گینارام میگھوال کو اپنی فیملی سمیت پھانسی کا پھندا لگا کر خود کشی کرنی پڑی اور اس کے ذمہ دار ان کے اپنے ہی محکمہ کے لوگ تھے جو اس پر مظالم کر رہے تھے۔ گینا رام کی فیملی کو چوری کے ایک جھوٹے معاملے میں گزشتہ دو سالوں سے پریشان کیا جا رہا تھا۔ اس کی فیملی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور دو مرتبہ ایف آر لگ جانے کے باوجود معاملے کو پھر سے بار بار کھولا جا رہا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ محکمہ جاتی طور پر بھی گینا رام کے خلاف کارروائی کی گئی اور اس معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے 5 لاکھ روپے کی رشوت کا مطالبہ کیا گیا۔ لگاتار ہو رہے استحصال سے مایوس گینا رام، اس کی بیوی، بیٹی اور بیٹےنے پہلے تو زہر کھایا اور بعد میں پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے۔ خودکشی سے پہلے گینا رام کی فیملی نے اپنے خودکشی نوٹ کوسوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کیا جس میں اس پر مظالم کرنے والے ملزمین کے نام لئے گئے ہیں۔
Published: undefined
پوری فیملی کے ذریعہ خودکشی کے بعد مقامی لوگوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ ان مظاہرین کے مطالبات کے سامنے جھکتے ہوئے راجستھان حکومت نے نامزد ملزمین کی جلد گرفتاری کی یقین دہانی کرائی اور سخت قانونی کارروائی کا بھی اشارہ دیا۔ اس کے بعد ہی 23 جنوری کو مہلوکین کی آخری رسوم ادا کی جا سکیں۔ لیکن اس معاملے میں لوگوں کی ناراضگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ جس وقت گینا رام میگھوال کی فیملی کے 4 مہلوکین کی آخری رسوم ادا ہو رہی تھیں تب بھی پولس صدر دفتر کے باہر راجستھان کے دلت اور حقوق انسانی تنظیم کے لوگ مظاہرہ کر رہے تھے اور قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ریاست کے دلتوں میں اس لیے بھی غصہ ہے کہ ان کی تکلیف سننے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ دلتوں پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں لیکن قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ کوئی انسان جب تک پوری طرح سے ناامید نہیں ہو جائے تب تک جان نہیں دیتا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ گینا رام کی فیملی کافی وقت سے مظالم کے شکار تھے اور انصاف نہ ملنے کے سبب پوری فیملی نے موت کو گلے لگا لیا۔ گینا رام نے اپنے 6 صفحات کے خودکشی نوٹ میں خودکشی کرنے والی فیملی کی پوری داستان لکھی گئی ہے۔ مرنے سے پہلے یہ نوٹ سوشل میڈیا پر اس لیے پوسٹ کیا گیا تاکہ گنہگاروں کو بخشا نہ جائے۔
ہم اس طرح کے قتل اور منصوبہ بند خودکشی کو دیکھتے رہنے کے لیے عادی ہو چکے ہیں۔ ہر دن ناانصافی، مظالم، خون خرابہ، قتل اور خودکشی سے متعلق خبریں سننے کے لیے مجبور ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کہیں جا کر رکے گا یا یہ ہمیشہ ہمیشہ تک جاری رہے گا، کیا کوئی طریقہ ہے اس مظالم سے آزادی کا؟
ہر واقعہ ہمیں غصہ دلاتی ہے، پریشان کرتی ہے، تحریک چلانے پر مجبور کرتی ہے، ہم سڑکوں پر اترتے ہیں، غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ کرتے ہیں، سی بی آئی سے اپیل کرتے ہیں جو، جو لوگ تحریک میں ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں انھیں سلام بھیجتے ہیں، جو نہیں آتے ہیں انھیں گالیاں دیتے ہیں، کچھ دن جانچ ہوتی ہے، چالان، سنوائی، گواہی، فیصلہ یا سمجھوتہ ہو جاتا ہے، ہم اگلے واقعہ میں انصاف پانے کے لیے پھر سڑکوں پر ہوتے ہیں، گزشتہ تین چار سالوں سے سڑکیں ہی ہمارے لیے جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔
یہاں کس کو جینے دیا جا رہا ہے؟ کسی کو بھی تو نہیں۔ ہماری یونیورسٹی کے طلبا بڑی تعداد میں خودکشی کر رہے ہیں، روہت ویمولا تنہا نہیں ہے، ہر یونیورسٹی میں کئی روہت ویمولا ہیں جن کے گلوں کے لیے پھندے تیار ہیں، ہم نے روہت ویمولا، ڈیلٹا میگھوال، متھو کرشنن، رویندر میگھوال جیسے درجنوں ہونہار نوجوان کھو دیے ہیں، جو نہیں مرے ان کو مار دیا گیا ہے، نجیب جیسوں کو غائب کر دیا گیا ہے۔
پورا ملک ہی میدانِ جنگ بن چکا ہے، آئین کے ذریعہ دیے گئے ریزرویشن کے معاملے پر پریشان کیا جا رہا ہے، سی بی آئی اور انٹی کرپشن بیورو ہمارے افسران، ملازمین اور عوامی نمائندوں کےپیچھے پڑے ہوئے ہیں، ذرا سا بولو اور جیل جانے کی تیاری کر لو، نہ بولنے کی، نہ لکھنے کی، نہ ہی کھانے کی، نہ ہی پیار کرنے کی، کسی بھی چیز کی آزادی نہیں بچی ہے۔ ہر طرف استحصال ہے، ظلم ہے اور آہ و بکا ہے، جمہوریت صرف کہنے بھر کے لیے رہ گئی ہے۔
کیا وجہ ہے کہ پھولن دیوی کے قاتل پورے ملک میں آزاد گھوم رہے ہیں اور بھیم آرمی کا سربراہ راسوکا میں جیل کے اندر پڑا ہوا ہے؟ کیا ہم اتنے بے وقوف ہیں کہ ہم سمجھنے میں ناکام ہیں کہ پورے راجستھان میں سامراجیت، برہمن ازم اور بنیا ازم اپنے عروج پر ہے اور ہم سب کچھ سمجھ کر بھی ناسمجھ بنے ہوئے ہیں۔ آخر ہم کب جان پائیں گے کہ ہمارے ’ذاتی دشمن‘ صدیوں بعد پھر سے اقتدار پر قابض ہوئے ہیں اور ان کی ایک بڑی مہم چل رہی ہے کہ کس طرح اس ملک کو ایک خاص ذات کے نام پر شدت پسند ملک بنا دیں، جس میں یا تو ہم غلام، مزدور یا خادم کی طرح رہیں گے یا ہمیں مرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ جو روہت ویمولا اور گینا رام فیملی کی طرح خودکشی نہیں کریں گے ان کو مار دیا جائے گا۔
راجستھان کے ناگور ضلع کے سرپالیا تھانہ حلقہ کے باگراسر گاؤں کا یہ واقعہ صرف ایک دلت فیملی کی خودکشی نہیں ہے۔ یہ ہمارے اجتماعی شعور کا قتل ہے۔ یہ نظام کے منظم ظلم کی سب سے تازہ مثال ہے۔ ملک عجیب و غریب ماحول سے روبرو ہے۔ ایک طرف راشٹرپتی بھون اس طبقہ کے حوالے ہے تو دوسری طرف گینا رام جیسے لوگوں کی زندگی کے لالے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم گینا رام فیملی کے قتل کے خلاف لڑیں یا اجتماعی غم میں ڈوب کر آہ و بکا کریں۔
آخر کب تک ہم ایک حادثہ کے بعد انصاف حاصل کرنے کے لیے بھاگتے رہیں گے۔ کیا ہماری مزید دو تین نسلوں کو اپنی جانوں کی قربانی دینی ہوگی یا کوئی اثردار طریقہ ہم دریافت کر پائیں گے؟ ظلم سے آزادی میں کامیاب ہوئے بغیر ہم آگے کیسے بڑھیں گے؟ ترقی، وقار، فخر، مشن کی باتیں تو اس وقت کریں گے جب زندہ رہیں گے۔ آج تو حالات ایک ایک کو چن چن کر مارنے جیسا ہے۔ سبھی آوازیں دَم توڑ رہی ہیں۔ لوگ زندگیوں سے ہار رہے ہیں۔ جمہوریت سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ قصداً آئین اور آئینی اداروں کو برباد کیا جا رہا ہے۔ انصاف، برابری اور آزادی کے وعدے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں میں گہری مایوسی کا جذبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ مایوسی صرف خودکشیوں کی وجہ سے نہیں ہے، اس ملک کو بچائے رکھنے کےجب سبھی امکانات ختم ہو جائیں گے تب یہ ظالم بھی نہیں بچ پائیں گے۔ کیونکہ شرپسندی کسی کو نہیں چھوڑتی، یہ ایک سنامی ہوتی ہے جو سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔ ملک کا 70 فیصد طبقہ آج مظلوم ہے۔ یہ مظلوم سماج جب اپنے ساتھ ہو رہی ناانصافی کو سمجھ جائے گا تب کسی کو نہیں چھوڑے گا اور وہ دن زیادہ دور نہیں ہے۔
مجھے گینا رام کی فیملی سے ہمدردی تو ہے لیکن ناراضگی بھی ہے۔ خودکشی کی جگہ جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا، اس خط کو خودکشی نوٹ بنانے کی جگہ اعلانِ جنگ کا خط بنا لینا چاہیے تھا۔ جو کچھ اس نے مر کر بتایا اسے زندہ رہ کر بتا دینا چاہیے تھا۔ اس قدر گھٹن اور تنہائی برداشت کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اپنا درد سب کو بتانا چاہیے تھا، کچھ لوگ اب بھی زندہ ہیں جو آخری دَم تک لڑتے ہیں۔ گینا رام آپ لوگ کیوں مرے، جو آپ لوگوں کی موت کے ذمہ دار ہیں انھیں ڈوب مرنا تھا۔ خودکشی کے راستے کی میں حمایت نہیں کرتا ہوں۔ میری دلچسپی زندہ رہ کر جدوجہد کرنے میں ہے، کمزور ہونے میں نہیں۔ آخری سانس تک لڑنا ہے، جب مرنا ہی ہےتو آخری سانس تک لڑتے ہوئے مرنا ہوگا۔ بغیر ڈپریشن میں آئے، بغیر تھکے ہمیں لڑنا ہے، اگر ہم نہیں لڑے تو آنے والی کئی نسلیں برباد ہو جائیں گی، اس لیے خودکشی کی جگہ لڑائی کی راہ اختیار کرنا ہی سمجھداری ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined