سماجی

دنیا میں جسم فروشی کا پھلتا پھولتا کاروبار!، کئی ممالک میں قانونی تحفظ حاصل

سیکس کی تجارت دنیا کے کئی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

انسانی تاریخ کا قدیم ترین اندراج کچھ چار ہزار سال قبل مسیح تک ہی ہمیں لے کر جاتا ہے۔ جہاں تک لکھی ہوئی انسانی تاریخ موجود ہے جس میں عصمت فروشی کے شواہد ہر دور کی ہر قوم اور ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ عصمت فروشی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟ یہ کیسے معرض وجود میں آئی اور اس کی ضرورت کیوں درپیش ہوئی؟ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ دورِ حاضر میں بھی عصمت فروشی دنیا کے تمام معاشروں میں پائی جاتی ہے حتیٰ کہ کئی ایک ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

امریکہ جو آج ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے اگر اس کی ترقی کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ملک کی ساری ترقی اور پیشرفت استعماریت اور سامراجیت کی مرہون منت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جس کی تاریخ انسانوں کی تجارت اور نسل پرستی جیسے غیر انسانی عمل سے جڑی ہوئی ہیں۔ آج اگرچہ غلاموں کی خرید و فروخت اور نسل پرستی پچھلے سالوں کی طرح اس ملک میں رائج نہیں ہے لیکن انسان فروشی کا ’تازہ شمارہ‘ یعنی جنسی غلامی یا سیکس کی تجارت دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں بھی بڑے پیمانے پر انجام پا رہی ہے۔ اس شرمناک تجارت میں خرید و فروخت کیا جانے والا سامان نہ صرف مرد و عورت ہیں بلکہ کم سن اور نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

جنسی غلامی جو کہ انسانی اسمگلنگ کا ایک پروڈکٹ ہے، نے عورت کو ایک طرح سے ’بے جان سامان‘ میں بدل دیا ہے۔ غربت اور مفلسی کا شکار ممالک سے عورتوں اور لڑکیوں کو اسمگلنگ کر کے مغربی اور امریکی ممالک میں لے جایا جاتا اور وہاں جنسی غلامی کے طور پر بے جان سامان کی طرح انہیں بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے اورجنسی ہوس پرست یا دولت کے پجاری ان عورتوں کی خریداری کر کے یا اپنے استعمال میں لاتے ہیں یا ان سے جنسی افعال کا ارتکاب کروا کر ان کی ویڈیوز کو مجازی دنیا میں پھیلا کر پیسہ کماتے ہیں۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

اس درمیان امریکہ جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اس حوالے سے اس کی صورتحال تو بہت ہی بدتر ہے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ خواتین، لڑکیوں اور بچوں کو امریکہ اسمگلنگ کیا جاتا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ ان میں بعض بچوں کی عمر9 سال سے بھی کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی وزارت انصاف نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ ہر سال تین لاکھ امریکی صرف جنسی افعال کے ارتکاب کے لئے اسمگلروں کے دھندے کا نشانہ بنتے ہیں۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

سوال یہ ہے کہ امریکہ یا دیگر ممالک میں کیا چیز باعث بنی کہ آج اس قدر دنیا میں عصمت فروشی کا بازار گرم ہو چکا ہے؟ عصمت فروشی کی آزادی کا سب سے پہلا عامل اور سبب مساج کے بازار کو گرم کرنا ہے۔ مساج کے عمل کو قانونی شکل ملتے ہی عصمت فروشی کا کام شروع ہو گیا اور لوگ بدن کے مساج کے بہانے بدکاری کو رواج دینے لگے اور بظاہر مساج دینے لیکن حقیقت میں عصمت فروشی کے لئے لڑکیوں کی امریکہ میں اسمگلنگ کا دھندا کافی زور پکڑ گیا۔ دوسرا بڑا سبب خود میڈیا اور سوشل میڈیا ہے جس نے انٹرنیٹ، اخباروں، جریدوں حتیٰ کتابوں کے ذریعے برہنہ تصاویر، پوسٹر اور قابل اعتراض فلمیں شائع کرکے لوگوں میں اس بدکاری کو رواج دیا۔ در حقیقت اگر مرد عورت کو صرف جنسی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ سمجھے گا تو پیسے یا ہر دوسری قیمت پر اسے حاصل کرکے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرے گا۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

انسانیت سے عاری اس دردناک و تلخ حقیقت نے جتنا منافع سرکاری اور غیرسرکاری عہدیداروں کو دیا ہے اتنا کسی دوسری تجارت نے نہیں دیا یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس عمل کی روک تھام کے لئے کوئی اقدام نہیں کر رہی ہے۔ دنیا میں جنسی غلامی، لڑکیوں کی اسمگلنگ اور سیکس کی تجارت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

متعدد دانشوروں کے مطابق عصمت فروشی زرعی سماج کی قدیم رسومات ساحری اور مذاہب سے جڑی ہوئی ہے۔ اس زمانے میں کھیتی کرنے اور جنسی فعل کو ایک جیسا ہی سمجھا جاتا تھا۔ فصلوں کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لئے کھیت کھلیانوں میں جنسی عمل کیا جاتا تھا چونکہ سماج کا انحصار زرعی پیداوار پر تھا اس لئے اس دور میں دنیا بھر میں’دھرتی ماتا‘ کی پوجا رائج تھی۔ دھرتی ماتا یعنی زمین کی تالیف قلب کے لئے اس کے معابد جنسی عمل کے اولین مراکز بنے جہاں جنسی عمل برسرعام کیا جاتا تھا۔ کچھ جگہوں پر یہ قاعدہ تھا کہ ہر دوشیزہ کو زندگی میں ایک بار عشتار، اپالو یا دیگر دیویوں کے معابد میں ایک بار کسی یاتری کے ساتھ جنسی عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ جبکہ معابد کی داسیوں کا یہ عام معمول تھا۔ انھیں جو رقم اس کے عوض نذرانے کے طور پر یاتریوں سے ملتی تھی وہ مہا پروہتوں اور پجاریوں کے لئے کمائی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اسے بعد ازاں حکمران طبقات نے ایک منظم اور نفع بخش کاروبار میں تبدیل کر دیا۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اہل یونان ہی تھے جنھوں نے ایتھنز میں دنیا کا پہلا سرکاری قحبہ خانہ قائم کیا۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

دورِ حاضر میں عصمت فروشی ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور کچھ ممالک میں اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہے۔ عورتوں کی جسم فروشی امیر زادوں کی لذت پوری کرنے کے لئے کی جاتی ہے اور اس کی قیمت وصولی جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بظاہر عصمت فروشی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن اسے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف منافع بخش کاروبار ہونا ہی ہے۔ چونکہ سرمایہ داری منافع خوری کا نام ہے چنانچہ ایسا کاروبار جو منافع بخش ہو، اسے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

عصمت فروشی کا خاتمہ اور عورت کا وقار صرف اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب ذاتی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے، سرمایہ داری کو شکست دی جائے اور اس کی جگہ اشتراکیت لاگو کی جائے۔ کیونکہ اشتراکیت ہی واحد نظام ہے جو ہر استحصال کو ختم کرتا ہے۔ عورت کی نجات بنیادی طور پر محنت کی نجات سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ اشتراکیت ہی عصمت فروشی کو ختم کرے گی اور یہ عورت کا کھویا ہوا مقام اسے واپس کرے گی۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ اس کی سب سے بڑی مثال کامریڈ لینن اور کامریڈ اسٹالین کی قیادت میں روس کے محنت کشوں کا برپا کیا ہوا عظیم اکتوبر انقلاب ہے جس نے قحبگی سمیت عورت کو استحصال اور جبر کی ساری شکلوں سے نجات دلائی۔ چین، کوریا، ویتنام، کیوبا سے لے کر مشرقی یورپ اور افریقہ تک کے ممالک میں جہاں جہاں سوشلسٹ انقلابات کامیاب ہوئے وہاں عورت کی حقیقی آزادی کا سویرا طلوع ہوا۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Jun 2019, 8:10 PM IST