پلوامہ میں سی آر پی ایف جوانوں کا جس طرح قتل کیا گیا، اس کے خلاف پورے ملک میں جو غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ فطری ہے۔ یہ ماننا بھی فطری ہے کہ ہم سکھ چین کی نیند سو سکیں اس کے لیے انھوں نے شہادت دی۔ لیکن حکومت کی نظر میں یہ ’شہید‘ نہیں ہیں۔ کیونکہ سی آر پی ایف سمیت تمام نیم فوجی دستوں یعنی سی آر پی ایف، بی ایس ایف، سی آئی ایس ایف، ایس ایس بی وغیرہ کے جوان بھلے ہی ملک کی سرحد کے اندر ملک کے دشمنوں سے ہماری حفاظت میں ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن انھیں اور ان کے اہل خانہ کو کئی عام سہولیات بھی نہیں ملتی ہیں۔
یہ سب سن کر آپ کو کچھ عجیب لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ باتیں حکومت کی جانکاری میں نہیں ہیں یا لوگوں کو اس کی جانکاری نہیں۔ ابھی گزشتہ ہی سال کی بات ہے۔ بی ایس ایف ہیڈ کانسٹیبل نریندر کمار کا مسخ شدہ جسد خاکی کشمیر میں زیرو لائن کے پاس ملا تھا۔ ستمبر کے مہینے میں اس کے دوسرے ہی دن ان کے بیٹے موہت داہیا ایک نیوز چینل پر تھے۔
اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کے کندھے پر آ گئی ذمہ داریوں کی فکر ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’میرے والد شہید ہو گئے اور آج کم از کم صبح تک مجھے اس پر فخر تھا۔ لیکن (حکومت کی طرف سے) کوئی بیان نہیں آیا۔ میری ماں ہے، چھوٹا بھائی ہے۔ اب مجھے ایک چیز بتائیں، اب مجھے فوراً ایک ملازمت تلاش کرنی چاہیے یا مجھے اپنی غمزدہ ماں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے؟‘‘
Published: undefined
لیڈروں سے لے کر عام آدمی تک کی جانب سے دشمنوں کو منھ توڑ جواب وغیرہ کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں، لیکن کیا ہمیں حقیقت سے روبرو ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ کارگل میں ملک کے لیے جان لگا دینے والے میجر دیویندر پال سنگھ نے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جوان جان کی بازی لگا دیں، لیکن جنگ میں شہید جوانوں کی بیویاں پنشن اور ان کے بقایہ رقم کو پانے کے لیے یہاں سے وہاں بھٹکتی پھریں گی، کیوں کہ ان میں سے کئی ایسی ہوں گی جن کے شوہر کی لاش نہیں ملے ہوں گے اور انھیں کہا جائے گا کہ رقم پانے کے لیے انھیں لاش کے ثبوت لانے ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے جوان جان کی بازی لگا دیں، لیکن جن کا عضو مسخ ہو جائے، انھیں صحیح پنشن پانے کے لیے عدالت تک جانا پڑتا ہے۔ خود میں سات سال تک آرمڈ فورسیز ٹریبونل میں یہ ثابت کرنے کے لیے لڑا کہ میں جنگ سے متاثر ہوں اور مجھے صحیح پنشن دیا جائے۔ مختلف عدالتوں میں اس طرح کے 1000 کیس زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور ہدایتوں میں غیر ضروری معاملوں کو بند کرنے کو کہہ چکا ہے لیکن وزارت دفاع سب سے بڑا مدعی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے 30 نومبر 2018 کے دوران دہشت گردانہ تشدد میں نیم فوجی دستوں کے 231 جوان شہید ہوئے ہیں۔ ان میں سی آر پی ایف کے جوانوں و افسروں کی تعداد سب سے زیادہ 130 رہی ہے۔ بی ایس ایف کے 55، آسام رائفلز کے 41 اور بی مسلح سرحدی فورس کے پانچ لوگ ہیں۔ سی آر پی ایف ماؤنواز متاثرہ علاقوں کی تقریباً 80 فیصد حفاظتی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے جب کہ وادی کشمیر میں اس نے تقریباً 65 ہزار جوانوں کو تعینات کر رکھا ہے۔
نیم فوجی دستوں کے جوانوں اور بٹالینوں کی تعداد جس طرح بڑھ رہی ہے، اس سے پانچ سے سات سال میں ان کی تعداد فوج سے زیادہ ہو جانے کا امکان ہے۔ پھر بھی حکومت انھیں ’دوئم درجے کا فوجی‘ ہی مان رہی ہے۔ کچھ مثالیں پیش ہیں...
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز