ملک کی راجدھانی میں ایک ایس ایچ او کے ذریعہ خاتون کا سرعام جنسی استحصال کیا گیا اور خاتون پر پولس والوں نے حملہ کر کے اس کا کیمرہ لوٹ لیا۔ ان معاملوں میں مرکزی وزارت داخلہ راج ناتھ سنگھ اور پولس کمشنر امولیہ پٹنایک کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
خواتین کے تحفظ کے تئیں حساس ہونے کا ڈھنڈھورا پیٹنے والی دہلی پولس نے فوراً کیس تک درج نہیں کیا، کیونکہ الزامات کے گھیرے میں خود دہلی پولس تھی۔ کوئی عام خاتون ہوتی تو معاملہ دَب جاتا، لیکن اس واقعہ میں شکایت کرنے والی خاتون ایک صحافی تھی۔ اسی لیے اس معاملے نے طول پکڑ لیا۔ صحافیوں نے پولس صدر دفتر پر دھرنا بھی دیا لیکن پھر بھی کیس درج نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد صحافی ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ سے ملے پھر بھی کیس درج نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ تک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا، پھر کہیں جا کر 26 مارچ کو پولس نے خاتون صحافی کی شکایت پر دہلی کینٹ تھانہ کے ایس ایچ او ودیادھر کے خلاف جنسی استحصال کا معاملہ تعزیراتِ ہند کی دفعہ 354 اے کے تحت درج کیا گیا۔ یہ ایف آئی آر واردات کے چوتھے دن کیا گیا۔
اس معاملے میں ایک ویڈیو میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ سینئر پولس افسر کمار گیانیش نے ایس ایچ او کی حمایت میں خاتون صحافی کو ’سمجھانے‘ کی ’جی توڑ‘ کوشش کی تاکہ وہ شکایت درج نہ کرائے۔ لیکن خاتون اپنی بات پر بضد رہی۔ معاملہ جب طول پکڑ گیا تو دہلی پولس نے خاتون کی شکایت پر وجلنس محکمہ کے ذریعہ جانچ کرائی اور اس کی بنیاد پر ہی کیس درج کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ایس ایچ او کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اسے صرف لائن حاضر کیا گیا ہے۔
کیا دہلی پولس جنسی استحصال اور لوٹ کے ہر معاملے میں پہلے بھی وجلنس جانچ کراتی رہی ہے، یا اب آگے سے ایسا کرائے گی، یہ ایک سوال ہے۔ سی آر پی سی کی دفعہ 154 میں واضح ہے کہ کسی بھی معلوم جرم کی شکایت یا اطلاع پر پولس فوراً ایف آئی آر درج کرے، اس کے بعد تفتیش کرے۔ لیکن خاتون صحافی کے معاملے میں پولس نے قوانین و ضوابط کو طاق پر رکھ دیا۔ مان لیجیے کہ پولس کو اگر خاتون کے الزام پر بھروسہ نہیں تھا تو بھی اس کا کام پہلے ایف آئی آر درج کرنے کا تھا۔ جانچ میں اگر الزام جھوٹے نکلتے تو وہ جھوٹی شکایت دینے کے الزام میں خاتون کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 182 کے تحت کیس درج کر سکتی تھی۔ لیکن ہر حالت میں قانوناً کیس تو سب سے پہلے درج کرنا لازمی ہے۔ معلوم جرائم سے متعلق پہلے ایف آئی آر درج کرنے کی جگہ وجلنس جانچ یا تفتیش کرانا یہ دہلی پولس کمشنر کا شاید اپنا نجی قانون اور ضابطہ ہے۔
ایک ہی دن (23 مارچ) میں ایک ہی مظاہرہ کے دوران ہوئی دوسری واردات ایک خاتون فوٹوگرافر کے ساتھ ہوئی جو مظاہرہ کا کوریج کر رہی تھی۔ اس پر پولس کے گروپ نے نہ صرف حملہ کیا بلکہ اس کا کیمرہ بھی لوٹ لیا۔ اور پھر واردات کے دو دن بعد یعنی 25 مارچ کو پولس نے اس معاملے میں خاتون سپاہی اور ایک مرد حولدار سمیت دو پولس والوں کو معطل کرنے کی خانہ پری کر دی۔ پولس نے کیمرہ ایک دیگر پولس اہلکار سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا لیکن واردات کے چار دن بعد تک کیمرہ پولس نے واپس نہیں کیا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس پولس والے سے کیمرہ برآمد ہوا ہے، اسے بھی گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ خاتون نے کیمرہ لوٹنے کی شکایت پولس سے کی تھی اور لوٹ کی چیزیں جس کے پاس سے برآمد ہوتی ہیں اسے بھی گرفتار کیے جانے کا قانون ہے۔ لیکن مذکورہ دونوں معاملوں میں ملزم پولس والے ہیں اس لیے پولس افسروں نے سارے قانون اور ضابطوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔
تعزیرات ہند میںح ترمیم کر کے دفعہ 166 اے (سی) جوڑا گیا ہے جس میں صاف ہے کہ معلوم جرائم، خصوصاً خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو درج نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔ ایسا کرنے والے پولس والے کو قید اور جرمانہ کی سزا ہوگی۔ مذکورہ دونوں معاملوں میں پولس نے قانون کی خلاف ورزی کر کے پولس افسروں نے اپنی مرضی چلائی اور قصورواروں کو گرفتار نہیں کیا۔ معاملہ صحافیوں سے جڑا ہوا تھا پھر بھی صحافیوں کو کیس درج کرانے کے لیے مظاہرہ کرنا پڑا اور وزیر داخلہ سے ملاقات بھی کرنی پڑی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی میں پولس عام آدمی کی تو بالکل بھی پروا نہیں کرتی۔
کچھ دن پہلے بھی سیلنگ کی کوریج کرنے والے ایک فوٹوگرافر سے اس کا کیمرہ چھین لیا گیا تھا اور اسے پولس والے اس طرح دبوچ کر لے گئے جیسے وہ کوئی بدمعاش ہو۔ اس طرح کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ پولس کا رویہ صحافیوں اور عام لوگوں کے خلاف کیسا ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined