سماجی

ندائے حق: عوامی تحریکات، عوامی طاقت کی عکاس... اسد مرزا

عرب بہار اور شاہین باغ واقعات برسر موقع اقدام تھے جن کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس اقدام کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

عرب بہار اور شاہین باغ / Getty Images
عرب بہار اور شاہین باغ / Getty Images 

گزشتہ 15 دنوں میں دو مختلف واقعات کی دسویں اور پہلی سالگرہ منائی گئی۔ دونوں کا آغاز حکومت کے خلاف احتجاج سے ہوا اور دونوں تحریکیں ایک عظیم الشان تحریکوں میں تبدیل ہوگئیں۔ پہلے نام نہاد، ’’عرب اسپرنگ‘‘ یعنی عرب بہار کے 10 سال مکمل ہو چکے ہیں اور دوسرے شاہین باغ احتجاج کا بھی ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ آیئے ان دونوں تحریکات پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان دونوں کا آغاز کس طرح ہوا، ان سے ملک اور علاقائی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔

Published: undefined

عرب بہار

10 سال قبل تیونس کے شہر سدی بوزد میں محمد بوازیزی نامی ایک نوجوان تاجر نے 17 دسمبر 2010 کو خود کو آگ لگالی۔ اس نے ایک انقلاب کی بنیاد ڈالی جو اس کے آبائی ملک اور بعد میں مشرق وسطی کے کئی ممالک میں پھیل گئی۔ احتجاج کی وجہ سے تیونس میں کئی تبدیلیاں آئیں اور متعدد انتخابات منعقد ہوئے۔ حکومت کی ازسرنو تشکیل سے پارلیمانی نظام مضبوط ہوا اور نئے دستور میں شہری آزادی اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنایا گیا جب کہ مسلح افواج کے اختیارات کو محدود کیا گیا۔ گو کہ احتجاجیوں نے تبدیلی اور آزادی و خوشحالی کے ایک نئے دور کی امید کی تھی لیکن 10 سال بعد مسرت و آزادی کے وہ شاندار لمحات ایک سنجیدہ حقیقت سے موہوم ہوگئے ہیں۔ ایک چھوٹا سا ملک معاشی جمود کے باوجود رشوت و سیاسی اور ثقافتی قطبیت کی وجہ سے اپنی راہیں تلاش کرنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ اگرچہ تیونس، عرب بہار کی واحد کامیابی تصور کیا جاسکتا ہے جہاں جمہوریت قائم ہوئی اور انقلاب کا ملک کے لئے سیاسی آزادی حاصل کرنے کا پہلا مقصد پورا ہوا، لیکن بیشتر عوام ابھی بھی معاشی خوشحالی سے ہنوز دور ہے۔

Published: undefined

عرب بہار مغرب کی نظر میں

مغربی میڈیا عرب بہار اور اس کے نتائج کو اپنے دقیانوسی، ناقص مستشرق زاویہ سے دیکھتا ہے۔ وہ پس پردہ حالات جو عرب بہار کے ابھرنے کا موجب بنے، مغربی میڈیا نے اس طرح سے انھیں پیش کیا جیسے کہ عرب بہار انقلاب، جمہوریت اور آزادی کے لئے فطری خواہش کا منطقی ردعمل نہیں تھا بلکہ یہ عربوں کی غیرمعقولیت اور ناسمجھی کی پیداوار تھا۔ دوسرے مغربی میڈیا اور اسکالرس نے تیونس کے انقلاب کی اہمیت کو صرف کامیابی یا ناکامی کی ایک کہانی تک محدود کردیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ عرب عوام جمہوریت کے لئے تیار نہیں ہیں۔

Published: undefined

عرب بہار کی کامیابی کے بعد

گزشتہ 10 سال کے دوران جس میں عرب بہار کو بھی دس سال مکمل ہوگئے اور جس کا آخری سال کووڈ- 19 کے سائے میں گزرا ہے، اس نے کئی عرب ممالک کو ایک غار کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ غذائی قلت، لیبیا، شام، عراق اور یمن کی ختم نہ ہونے والی جنگیں، ایران کی توسیع پسندی اور عالمی حالات نے مشرق وسطی کی تباہی کو مزید ابترکر دیا ہے۔

Published: undefined

تاہم عرب بہار اور اس کے ذریعے پھیلائی گئی سیاسی تحریکیں کئی دہوں کی ناکام حکومتوں کو مسترد کیے جانے اور کئی ممالک میں جمہوری طرز کی حکومتوں کی خواہش کی وجہ سے شروع ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر شام میں بغاوت ایک چھوٹے سے علاقائی احتجاج سے شروع ہوئی جس میں سیاسی اصلاحات کی اپیل کی گئی تھی نہ کہ مطلق العنانیت کے خاتمہ کی۔ جب ابتدائی اپیلوں کو غیرمعمولی تشدد کے ذریعہ سے کچلنے کی کوشش کی گئی تو اس کے بعد یہ اپیلیں موقع کے لحاظ سے تبدیل ہوگئیں۔ جغرافیائی حالات اور مطلق العنانیت کے تحت رہنے کی مشترکہ تاریخ کے علاوہ مشرق وسطی کی بغاوتیں بہت کم مشترک ہیں۔

Published: undefined

اوزیڈ کاٹرجی، ایک برطانوی۔ لبنانی فری لانس صحافی نے اس کا خلاصہ اس طرح کیا ہے کہ عرب بہار ہوسکتا ہے ختم ہوگئی ہے لیکن عوام کی بغاوت مشرق وسطی میں ابھی شروع ہی ہوئی ہے۔ مشرق وسطی نے اب خود کو ایسی حالت میں پایا ہے جس کو کارل مارکس نے ایک مستقل انقلاب سے تعبیر کیا تھا۔ اس کے عوام کی خواہشات مسلسل ابھاری جا رہی ہیں لیکن ان کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے۔ مطلق العنانیت کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے۔ حالات کو 2011ء کی طرف موڑا نہیں جاسکتا اور ان کی آبادیوں کی جانب سے جوں کا توں موقف قبول کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے جو مستقل طور پر ان کو حقوق سے محروم رکھتی ہو۔ بارود خشک ہوچکا ہے لیکن اس میں کسی چنگاری کا کوئی پتہ نہیں ہے۔

Published: undefined

شاہین باغ دھرنا

شاہین باغ دھرنا 16 دسمبر 2019ء کی شب کو انتہائی خاموشی سے شروع ہوا۔ اس رات دیر گئے 4 مرد اور 6 خواتین، چند بچوں کے ہمراہ شاہین باغ کی گلیوں سے نکل کر جو کہ جنوبی دہلی کی ایک مسلم بستی ہے، دہلی سے پڑوسی ریاست اترپردیش کو جوڑنے والی ایک اہم سڑک پر بیٹھ گئے۔ وہ خاموشی کے ساتھ اس مقام سے صرف چند سو میٹر کی دوری پر بیٹھے تھے جہاں قبل ازیں شام میں پولیس نے متنازعہ دستوری ترمیمی قانون (سی اے اے)، شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں کے ایک ہجوم کو پرتشدد طریقہ سے منتشر کر دیا۔ دھرنے کے مقام نے اس کو مزید مضبوط کر دیا کیوںکہ اس سے دارالحکومت اور پڑوسی ریاست کے درمیان ٹریفک منجمد ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں جو شور شرابہ ہوا اس سے اس دھرنے کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔

Published: undefined

16دسمبر کی رات سے ان چند خواتین کے ساتھ سینکڑوں احتجاجی شامل ہوتے چلے گئے، جن میں خواتین کی اکثریت تھی، جن میں نوجوان اور بوڑھے دونوں شامل تھے۔ ان کا اصل مطالبہ متنازعہ سی اے اے قانون میں مسلمانوں کی شمولیت اور ان شرائط سے استثنیٰ تھا جو مسلمانوں کے کاندھوں پرجب بھی ملک میں سی اے اے،این پی آر نافذ کیا جاتا ان کی شناخت ثابت کرنے کے لئے عائد کی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے کئی دن پہلے جامعہ اور اے ایم یو کے طلبہ اور یو پی کے کئی دیگر شہروں میں پولیس کی بربریت کے خلاف بھی آواز اٹھائی تھی۔

Published: undefined

شاہین باغ کے مظاہرین نے پرندہ شاہین سے حوصلہ حاصل کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ حکومت ان کے مطالبات کو تسلیم کرے وہ صاف طور پر این آر سی اور این پی آر کے نافذ ہونے پر مسلمانوں کو ہونے والی پریشانیوں کو شاہین کی طرح دیکھ رہے تھے۔ شاہین اردو میں فارسی سے لیا گیا ایک لفظ ہے جو باز پرندہ کے لیے مخصوص ہے۔ فارسی میں شاہین کے ادبی معنی شاندار یا بادشاہ کی طرح ہیں۔ علاوہ ازیں اسے پہلے سے لیے گئے کسی فیصلے کے سلسلہ میں پیشگی معلومات کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔ یہ پرندہ قابل لحاظ طاقت رکھتا ہے اگرچہ وہ دیکھنے میں چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔ اردو کے مشہور شاعر علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں لفظ شاہین کا استعمال نوجوان اور معمر دونوں کو متحرک کرنے اور ترغیب دینے کے لیے کیا۔

Published: undefined

شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی خواتین میں پرندہ شاہین کی تمام خصوصیات دیکھی گئیں جس کے نام پر ان کی بستی کا نام بھی رکھا گیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ دور اندیش اور عہد کی پابند ہیں اور آزاد پرندہ کی طرح رہنا چاہتی تھیں اور اپنے خاموش احتجاج کے ذریعہ لاپرواہ حکومت کو متوجہ کرانا چاہتی تھیں۔

Published: undefined

چند مہینوں کے بعد ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے عمل کے بعد عہدیداروں نے مارچ 20 کے اواخر میں اس دھرنے کو ختم کرانے میں کامیابی حاصل کی جو کہ ایک امتیازی قانون کے خلاف آواز کی علامت بن گیا تھا، جو اقلیتوں، بے گھر، دلتوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف ہے۔ ان خواتین نے اپنی لڑائی کو ملک کے دستور کو بچانے کی لڑائی قرار دیا۔ وہ عزم اور استقامت کی علامت بن گئیں اس ماں کی طرح جو اپنے بچوں کے لیے پہاڑیوں پر بھاگ دوڑ کرسکتی ہے۔ اسی طرح انہوں نے تصور کیا کہ وہ ایک محفوظ، باوقار اور قابلِ فخر مستقبل کے لئے لڑ رہی ہیں، جو نہ صرف ان کے بلکہ ان کے بچوں کے مستقبل کا ہندوستانی دستور کے مطابق ضامن ہوگا۔

Published: undefined

عرب بہار اور شاہین باغ میں مماثلت

دو واقعات اگرچہ ایک دوسرے سے ہزاروں میل کا فیصلہ رکھتے ہیں تاہم دونوں کے درمیان کچھ مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں واقعات برسر موقع اقدام تھے جن کی پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس اقدام کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہنوز دونوں واقعات میں بڑی تعداد میں عوام شامل تھے اور وہ حکمرنواں کے مستقبل کے لائحہ عمل پر اثر انداز ہونے کے محرک بنے۔ دونوں تحریکوں کو دنیا بھر کی توجہ اور تائید حاصل ہوئی اور اس سے ظاہر ہوا کہ خاموش مظاہرہ میں بھی کتنی طاقت ہوتی ہے۔

Published: undefined

گزشتہ ماہ دلی کی حدود پر کسانوں کی جانب سے حالیہ احتجاج بھی اسی عوامی مزاحمت کی ایک مثال ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو عوام کے ساتھ ہمیشہ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس سے انہیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور کیا حکومت کی جانب سے لیے گئے فیصلے عوام کو بہتر طور پر قبول ہوں گے یا نہیں۔ اگر فیصلے قابل قبول نہیں ہیں تو انہیں واپس لینے کے لیے بھی حکومت کو تیار رہنا چاہیے اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے مظاہرین کے ساتھ گفت و شنید کرنے اور فیصلے میں ترمیم کرنے یا اسے واپس لینے کے لیے بھی دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اور اس کے اس عمل سے مجموعی طور پر جمہوری تشخص کو بھی مزید تقویت حاصل ہوگی۔

مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined