جنوبی افریقہ اور ملک میں آزادی کی تحریک کے دوران سایہ کی طرح بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ رہیں اور عوام کی خدمت اور تعمیری کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی کستوربہ گاندھی کو بہت کم ہی یاد کیا جاتا ہے۔
مہاتما گاندھی اور کستوربہ دونوں جنوبی افریقہ اور بعد میں وطن میں آزادی کی لڑائی میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے۔ گاندھی جی نے جب چمپارن میں ستیہ گرہ کیا تب تعلیم، صحت اور صفائی جیسے تعمیری اور مثبت پروگراموں میں کستوربہ نے ان کا ساتھ دیا۔چمپارن میں کستوربہ کی جانب سے شروع کیا گیا اسکول آج بھی چل رہا ہے۔ باپو کے پیچھے کستوربہ ان آشرموں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور تحریکوں میں بھی شامل ہوتی تھیں۔’ بھارت چھوڑو تحریک ‘کے وقت گاندھی جی کوممبئی کے جلسہ عام سے ایک دن پہلے گرفتار کر لیا گیا۔ ایسے میں سوال تھا کہ جلسے سے اب کون خطاب کرے تو کستوربہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ ’میں کروں گی‘۔ انہیں گرفتار کر آغا خاں محل میں رکھا گیا، جہاں 22 فروری 1944 کو 74 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
Published: undefined
گاندھی جی پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ ہر سال ان کی جینتی منائی جاتی ہیں لیکن کستوربہ کی جینتی کبھی کبھار یا نہ کے برابر ہی منائی جاتی ہیں۔ گاندھی جی اور کستوربہ دونوں کی ڈیڑھ سوویں جینتی جیسے جیسے قریب آ رہی ہے تو گاندھی جی کے ساتھ ان کی بھی جینتی منانے اور ان کی خدمات کی بھی باتیں ہونے لگی ہیں۔ سینئر گاندھیائی رہنما رمیش شرما کہتے ہیں کہ ہمیں گاندھی جی کے ساتھ کستوربہ کی خدمات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کستوربہ سے ملک کی خواتین کو بھی تحریک مل سکے گی۔
Published: undefined
کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ کستوربہ مہاتما گاندھی سے عمر میں چھ ماہ بڑی تھیں اور اس بات پر دونوں میں جھگڑا بھی ہو جایاکرتا تھا۔ کستوربہ پر ناول لکھنے والے گری راج كشور کا کہنا ہے کہ ’با‘ کے بارے میں غلط فہمی ہے کہ وہ گاندھی کی فالوور تھیں جبکہ ایسا نہیں تھا۔ بچپن میں مونيا (مہاتما گاندھی) اور كستور ساتھ ساتھ کھیلتے تھے۔
مونيا یہ بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھا کہ كستوربہ ان سے چھ ماہ بڑی ہے۔ كستوربہ اس بات پر اڑی رہتی تھیں کہ مونيا اس سے چھ ماہ چھوٹا ہے۔ اس بات پر دونوں کے آپس میں کھیل تک بند ہو جاتا تھا۔
کستوربہ کی پیدائش مہاتما گاندھی کی طرح كاٹھياواڑ کے پوربندر شہر میں 11 اپریل، 1869 کو ہوئی تھی۔وہ اپنے والد ین کی تیسری اولاد تھیں۔ اس زمانے میں لوگ لڑکیوں کو پڑھاتے نہیں تھے اور شادی بھی کم عمر میں کر دی جاتی تھی۔ کستوربہ بھی بچپن میں ناخواندہ تھیں اور سات سال کی حالت میں ان کی سگائی اور تیرہ سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ مہاتما گاندھی اور کستوربہ گاندھی شادی کے بعد 1888 تک تقریباً ساتھ ساتھ ہی رہے لیکن گاندھی کے انگلینڈ قیام کے دوران تقریبا ًاگلے بارہ سال تک دونوں علیحدہ رہے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے فورا ًبعد گاندھی کو جنوبی افریقہ جانا پڑا۔ جب 1896 میں وہ ہندوستان آئے تب کستوربہ کو جنوبی افریقہ لے گئے۔ اس کے بعد سے کستوربہ ان کے ساتھ ہی رہیں۔ کستوربہ نے گاندھی جی کی طرح اپنی زندگی بھی سادہ بنا لی تھی۔ وہ گاندھی جی کے ملک کی خدمت کے ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں۔ گاندھی جی نے 1932میں جب ہریجنوں کے معاملہ پر یرودا جیل میں اپواس شروع کیا، اس وقت کستوربہ سابرمتی جیل میں بند تھیں۔ اس وقت وہ بہت بے چین ہو اٹھیں اور انہیں تب ہی چین ملا جب وہ یرودا جیل بھیجی گئیں۔
Published: undefined
گری راج کشور کہتے ہیں کہ شادی کے بعد کستوربہ نے اپنی تمام ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا لیکن بغیر کچھ کہے خود اپنے وقار کی حفاظت کی۔ وہ خاندانی تعلقات کو سب سے اوپر رکھتی تھیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کو لے کر بھی فکر مند رہتی تھی۔ وہ ذاتی تعصبات پر نظر ثانی کرتی رہتی تھیں. جب ایک ہریجن خاندان آشرم میں آکر رہنے لگا تو اوروں کی طرح کستوربہ بھی ناراض تھیں۔
گاندھی کے علاوہ سب آشرم سے چلے گئے تھے لیکن کستوربہ اپنے فیصلے پر غور کرتی رہیں۔ ایک دن ہریجن خاندان کی بچی کو کھیلتے دیکھ کر ان کا دل نہیں مانا اور اسے گود میں اٹھا لیا۔ کستوربہ کا دل اس بچی کی وجہ سے بدل گیا تھا۔کستوربہ نے اپنے شوہر کے آدرشوں اور نظریات پر چلنے سے کبھی انکار نہیں کیا لیکن ان کی ہر بات پر غور ضرور کرتی تھیں۔ آنکھیں بند کر کے کسی بات کو قبول کرنے سے قبل شوہر سے بحث کرتی تھیں۔ جنوبی افریقہ سے آتے وقت گاندھی کو بہت سے تحفے ملے تھے، جنہیں وہ کسی ٹرسٹ کو سونپنا چاہتے تھے لیکن کستوربہ اس سے متفق نہیں تھیں۔
اس پر ہونے والی بحث میں جب گاندھی جی نے کہا کہ یہ تحفہ انہیں ان کی خدمات کی وجہ سے ملے ہیں تو کستوربہ خاموش نہیں رہی بلکہ مضبوط طریقے سے کہا’’تمہاری خدمات اظہر من الشمس ہے لیکن خدمات کے دوران تعاون کرنے میں ہم تو کبھی پیچھے نہیں رہے پھر یہ تحفہ اکیلے تمہارے کیسے ہو گئے؟ ‘‘ کستوربہ کے انتقال کے بعد مہاتما گاندھی ان کی یاد کر کے کہا کرتے تھے کہ ’با‘ کے اوصاف محض اپنی مرضی سے ان میں سما جانے کا تھا۔ یہ کچھ ان کی درخواست سے نہیں ہوا تھا بلکہ وقت کے ساتھ با کے اندر ہی یہ اوصاف فروغ پاتاگیا تھا۔ شروع کے تجربات کی بنیاد پر گاندھی کو با بہت ضدی لگتی تھیں۔ ان پردباؤ ڈال کر اپنی بات منوالیا کر تیں۔اس کی وجہ سے ہم دونوں کے درمیان ایک مختصر وقت یا طویل عرصہ تک تلخی بھی رہتی، لیکن جیسے جیسے ان کی عوامی زندگی روشن ہوتی گئی، ویسے ویسے با كھلتی گئی اور پختہ خیالات کے ساتھ ان میں یعنی ان کے کام میں سماتی گئیں۔ہم دونوں دو مختلف شخصیت نہیں رہ گئے. وہ بہت مضبوط اوالعزم خاتون تھیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز