10محرم الحرام 61 ہجری کونواسۂ رسول الثقلینؐ ،فرزندعلی ؑ وفاطمہ ؑحضرت امام حسین ؑ نے بتادیاکہ کربلا، حق و باطل میں امتیاز کا نام ہے۔ کربلا، سچّائی اور کذب میں تفریق کا نام ہے۔ کربلا، انسانیت کی پناہ کا نام ہے۔ کربلا،آمریت کے خلاف جمہور کی آواز ہے۔ کربلا، غاصبوں اور حقوق انسانی کے نغمہ خوانوں کے درمیان حد فاصل ہے۔ کربلا، حق و باطل کی ازلی کشمکش کا نام ہے۔ پیغامِ حسینؑ میں ہی دراصل بقائے انسانیت پوشیدہ ہے۔ حسین ؑ، مظلوم کی سر پرستی کا نام ہے۔ حسین ؑ اسلام کی حقانیت اور سربلندی کا نام ہے۔ حسین ؑ قافلۂ عشاق کا امام ہے۔ حسین ؑ بقائے دوام ہے۔ حسین ؑ حقوق انسانی کے جری علم بردار کا نام ہے۔ حسین ؑ آمریت کے مقابل جمہور کا ترجمان اور اس معرکے میں مظلوم انسانیت کا سپہ سالار و امام ہے۔ حسین ؑ شجیع نے اپنے اور اپنے چہیتوں کے خون سے اسلام کے شجر طیّب کی آبیاری کی اور ثابت کردیا کہ نظریہ اور دین اہم ہوتا ہے، یہ جان توآنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات ہی نہیں۔
جواں مردوں کا امتحان ہمیشہ میدان کارزار میں ہوا کرتا ہے اور جواں مرد ہی سرخرو اور سربلند رہتے ہیں اور ایسے سربلند کہ ان سے زیادہ سربلند کوئی اور نہیں ہوتا۔ ایسے سربلند کہ گردن کٹوا کر بھی جن کے سر بلند ہی رہتے ہیں اور جب وہ راہ حق میں قتل کر دیئے جائیں تو خالق کل کائنات خبردار کرتا ہے کہ کوئی انہیں مردہ نہ جانے، کوئی اپنے شعور کے دھوکے میں نہ آئے، انہیں ہی دوام ہے جو راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کردیں۔ حسین ؑ اسی قافلے کا امام سربلند و سرخرو ہے اور رہتی دنیا تک رہے گا۔ حسین ؑ اپنی مثال آپ ہیں، کہاں سے لائے گی دنیا حسین ؑ جیسا جری۔۔۔۔ !
حق کائنات کا حسن ہے، احسان ہے،خوبصورتی ہے، حق روشنی ہے، مینارۂ نور ہے، صراط مستقیم ہے حق۔ انسانیت کا دوام ترقی اور فلاح، حق سے وابستہ رہنے میں ہی ہے۔ حق ہی ہے جوہرِ خالص، باقی تو بسں ننگ ہے۔باطل بدصورتی ہے، طاغوت ہے، کراہت ہے، غلاظت ہے، اندھیرا ہے، ظلم ہے، باطل حیلہ و دجل ابلیس ہے، گمراہی ہے، تذلیل انسانیت ہے باطل،مسترد و مردود ہے باطل۔حق اور اس کے پیروکار سر جھکاتے ہیں فقط خالق کائنات کے رو بہ رو، سر تسلیم خم کرتے ہیں بس وحدہ لا شریک کے احکامات پر۔ حق کے ندیم باصفا رب کی مخلوق کے حقوق کے محافظ اور زمینی خداؤں سے ہمیشہ برسر پیکار رہتے ہیں اور رہیں گے۔ حق کے دل دادہ اپنے لئے نہیں، رب کائنات کی مخلوق کے لئے جیتے ہیں۔ حق کی پیشانی خاک آلود ہوتی ہے بس رب کائنات کی بارگاہ میں۔باطل اور اس کے حواری اپنے نفس کے اسیر اور ہر مردود کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ باطل خاک آلود و خوار رہتا ہے نفس کی شررگاہ میں۔ باطل، خلق خدا کے حقوق کو غصب کرتا ہے۔ باطل رب کے باغیوں کا گروہ ہوتا ہے، جن کا امام راندۂ درگاہ ابلیس مایوس ہے، وہ ابلیس جو نکلا ہی مایوسی سے ہے۔ رب کے بندے تو نہ مایوس ہوئے تھے، نہ ہیں اور نہ ہی کبھی ہوں گے۔ باطل رب کی مخلوق کے لئے آزار ہوتا ہے۔ باطل تو رب کے آزاد بندوں کو غلامی کی زنجیریں پہناتا اور انہیں اپنے ذاتی مفاد کے لئے اپنا مطیع و فرماں بردار بناتا ہے۔روز ازل سے باطل کے رو بہ رو حق ہمیشہ برسر پیکار رہا ہے اور ابد تک رہے گا، کہ حق ہی کے لئے ہے سرخروئی اور سربلندی، فقط حق کا نصیبا ہے سر بلندی اور سرخروئی۔ وہ حق، حق ہی نہیں جس کے مقابل باطل نہ آئے کہ دجل و فریب باطل کی موت ہے حق فقط حق۔
کربلا میں بہ ظاہر تو باطل مردود کو فتح حاصل ہوئی، شیرخوار اور معصوم بچوں، عفت مآب خواتین، باکردار جوانوں اور افضل مردان حق کے ساتھ ظلم و ستم ہوا اور سب ہی جانتے ہیں کیسا ظلم، ایسا ظلم کہ خود ظلم بھی شرمسار اور رسوا ہوا۔ مگر رازدارانِ حقیقت اور صاحبانِ بصیرت خوب جانتے اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ شکست کس کا مقدر بنی اور بدکرداری کی کالک کس کے حصے میں آئی۔ کون نہیں جانتا یہ سچائی، کہ حسین ؑ اور حسین ؑ کے انصار ہی سربلند اور سرخرو رہے۔ یزید بہ ظاہر جیت کر بھی ایسا ہارا کہ رہتی دنیا تک ہار کی بدترین اور عبرت ناک مثال بن گیا اور بنا رہے گا۔
محرم کا چاند اپنے جلو میں نالہ و شیون،آہ و زاری اور سسکیوں سے معمور ہزارہا یادیں لے کر طلوع ہوتا ہے۔ محرم کے ساتھ اس رفیع الشان اور بے مثال ہستی کا تذکرۂ جلیلہ جڑا ہوا ہے جس کے نام کے ساتھ عشق و محبت، عزمیت و استقامت، غیرت و حمیت، شوکت و سطوت، جلال و جمال، فقر و استغنا، شجاعت و بسالت، حریت و فکر قلب و نظر، زہد و اتقاء ، لطافت رکوع و سجود، ذوقِ ایثار و قربانی، شوقِ شہادت و شہامت، منتہائے کمال عبادت، ذکر جلال ِ کبریا اور حب قرآن و ایمان کی آبرو وابستہ ہے۔یہ وہ عظیم و شحیم ہستی ہے جسے اہل دل و نگاہ و وفا ’’ حسین ؑ ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جس کا نام نامی زبان پرآتا ہے تو جبین ماحول سے سجدے ٹپک ٹپک جاتے ہیں۔ نجوم و کہکشاں فرطِ عقیدت سے جھکے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ کرۂ ارض ستاروں سے ہم آغوش ہونے کے لئے بے تاب ہو تا ہے۔ یہ مظاہر ِ فطرت کس کے لئے اور کس لئے اہتمامِ عقیدت کرتے ہیں۔ یقیناً یہ اظہارِ عقیدت حضورؐ کے نورِ عین حسین ؑ کے لئے ہے۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔۔ ؟ اس لئے کہ اس کائنات رنگ و بو میں اور کون ہے جو ہجوم غم میں بھی مسکرا کر اپنے لخت جسم و جاں بارگاہِ خداوندی میں بہ صد خلوص و رضا تیروں برستے مینہ میں پیش کرتا ہے۔ وہ کون ہے جو صراطِ حق کی بقا کے لئے معصومیت اصغر اور شباب ِ علی اکبر سرمقتل وفا پیش کر رہا ہے۔
حسین ؑ ! تیرے قابل فخر کردار سے دامن تاریخ پر یہ حقیقت رقم کر دی گئی ہے کہ دین محمدؐ میں ملوکیت حرام ہے۔ اے حسین ؑ ! تو نے بادہ ہائے عشق و حکمت سے کشت حق کو ایسی سیرابی عطا کی جس کے باعث موجِ آب حیات رواں رہے گی۔ اے حسین ؑ ! تیری رفعت کردار پر اہل زمن بساط و دیدہ و دل بچھا کر بہ صورت سوغات عرش والوں کے حضور پیش کرتے رہیں گے۔اے شہزادۂ دشت کربلا تیرے تصور ِ جمیل سے دلوں کو متاع سوز و گداز مرحمت ہوتی ہے۔ اے حسینؑ ! تیرے لہو کا ہر قطرہ جلوۂ تقدیس کبریائی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ اے حسین ؑ ! تو نے سوز و قرأت قرآن سے سنجیدگی ِ کوہ دمن میں گدازآفریں تلاطم بپا کر دیا۔ تیرے مجاہدانہ کردار سے نمرودانِ وقت کی جبینوں پر پسینے پھوٹتے رہیں گے۔ اے پیکر صبر و رضا ! تو نے اپنے خون سے جسد ِ اسلام کو نیا ولولہ اور سطوت آگیں طنطنہ عطا کیا۔ اے حسینؑ ابن حیدرؑ ایک بار چشم التفات ہو کہ آج پھر نسلِ انسانی زنجیر قیصریت میں پا بجولاں جکڑی نظرآتی ہے۔
رگ و پے سے بے حیائیاں ڈول رہی ہیں ،غیرتیں دم توڑ رہی ہیں، ناموسِ اسلام پر ڈاکہ زنی کے لئے ذریّتِ شمر ذی الجوشن بے رحم ہاتھوں میں تیغ ِ ستم لئے پر تول رہی ہے۔ اے تاج دارِ نینوا ! ایک بار پھر نگاہِ لطف و کرم عطا ہو کہ ثروت کون و مکاں کی خیرات عطا کرنے والے بازارِ حیات میں خود نیلام ہوتے جا رہے ہیں۔ ارباب ِ جفا ذکر تقدیس اسلام کا پھر مذاق اڑاتے نظرآتے ہیں۔ تیشہ الحاد سے شیشہ ہائے تقدس چورچور ہوتے جارہے ہیں۔ حالات اس قدر ناموافق ہیں کہ صبا بھی آتی ہے تو رخِ برگ گلاب کو جھلسا دیتی ہے۔ پرستاران بتانِ وہم و گماں اہل حقائق و معارف پر طعنہ زن اور حملہ آور ہو چکے ہیں۔غضب تو یہ ہے کہ چمنستانِ اسلام کے پھول بھی اپنی آستینوں میں کانٹے لئے محو ِ خرام ہیں۔ اے حسین ؑ ! اپنی چشم فیض رساں پھر جلوہ گر کریں ،فکر یزیدیت کے علم بردار ہاتھوں میں تصویر خزاں لئے فخر و مباہات اور غرور و تمکنت سے آبروئے بہار چھین لینے کے در پے ہے۔ فقیہِ شہر خلعت تقدس کو تار تار کر کے شاداں و فرحاں جاں سپارِ ملوکیت بنتا جا رہا ہے۔ کجلاہانِ وقت کے خدشۂ جور سے چشم انسانیت کی پلکوں پرآنسو تیرتے نظر آتے ہیں۔ مزاج سماج میں نہ گفتار دلبرانہ، نہ جذب ِ قلندرانہ کی جھلک نظر آتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined