حال ہی میں وشاکھا پٹنم کی جس کمپنی (ایل جی پالیمرس) میں گیس کا اخراج ہوا اور جس میں 12 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، وہ کمپنی بغیر کسی ماحولیاتی منظوری کے چل رہی تھی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس حقیقت کا ریاستی حکومت اور متعلقہ محکموں کو بھی پتہ تھا۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
ویسے اس حقیقت سے کم از کم آلودگی کو قابو میں رکھنے اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق سرکاری محکوں کو نزدیک سے جاننے والے لوگوں کو قطعاً تعجب نہیں ہوگا کیونکہ ملک بھر کی بڑی صنعتیں اور منصوبہ بندیاں اسی طرح سے کام کرتی ہیں۔ سال 2014 کے بعد سے لگاتار ماحولیات سے متعلق قوانین کو کھوکھلا کرنے کا عمل جاری ہے اور کورونا وائرس کے دور میں تو ماحولیات کی گویا قبر ہی کھود ڈالی گئی ہے۔ اب ماحولیات کے حوالہ سے منظوری میں سے محض منظوری ہی باقی رہ گئی ہے جبکہ ماحولیات کا لفظ اس میں سے پوری طرح غائب ہے۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
دراصل، ایل جی پالیمرس نے اپنی صلاحیت میں اضافہ کیا تھا، جس کے بعد قانونی طور پر اسے ماحولیات کے حوالہ سے منظوری لینی تھی لیکن سب یونہی چلتا رہا۔ البتہ آندھرا پردیش اسٹیٹ پالیوشن کنٹرول بورڈ اسے منظوری دیتا رہا اور کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس نے ماحولیاتی منظوری حاصل بھی کی ہے یا نہیں۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
پھر عدالت عظمیٰ کے کسی فیصلہ کے بعد اور وزارت ماحولیات کے نوٹیفکیشن کے بعد دسمبر 2017 میں اس صنعت نے مرکزی حکومت کی ماحولیات اور جنگلات کی وزارتوں میں منظوری کے لئے درخواست بھیجی۔ مرکزی حکومت نے اس درخواست کو اپریل 2018 میں آندھرا پردیش کی ماحولیات کے حوالہ سے منظوری فراہم کرنے والی تنظیم (اسٹیٹ انوایرمینٹ امپیکٹ اسیسمنٹ اتھارٹی) کو تو بھیج دیا مگر صنعت کو منظوری ملنے تک کام کو بند کرنے کی ہدایت جاری نہیں کی۔ وزارت ماحولیات کی ہی یہ ہدایت ہے کہ جب تک ماحولیات کے حوالہ سے منظوری حاصل نہ ہو جائے جب تک تک کسی صنعت کو چلایا نہیں جا سکتا ہے۔ ستمبر 2018 میں ایل جی پالیمرس نے ترمیم شدہ درخواست ریاستی اتھارٹی کے پاس بھیجی، جس میں اس نے کہا کہ صنعت چل رہی ہے، پھر بھی اتھارٹی نے اسے بند کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
گیس لیک ہونے کے بعد سے مقامی باشندگان اس صنعت کو آبادی والے علاقہ سے ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھا رہے ہیں ۔اسی اثنا میں میڈیا رپورٹوں کی بنیاد پر صنعت کے خلاف این جی ٹی (نیشنل گرین ٹریبیونل) نے از خود نوٹس لیا ہے، جس پر 8 مئی کو پہلی سماعت بھی ہو چکی ہے اور کمپنی کو ہرجانہ کے طور پر 50 کروڑ روپے ضلع مجسٹریٹ کے یہاں جمع کرنے کو کہا گیا ہے۔ این جی ٹی نے متعلقہ سرکاری محکموں اور افسران کی بھی اس معاملہ میں ذمہ داری طے کرنے کو ہدایت دی ہیں۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
تعجب ہے کہ کمیٹی کے لئے جو ایجنڈا این جی ٹی کی طرف سے طے کیا گیا ہے اس میں اس صنعت سے صرف گیس اخراج اور اس کے اثرات کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ صنعت میں آلودگی کو قابو کرنے کے آلات موجود ہیں یا نہیں، یا پھر ایک خطرناک کیمیکلوں والی صنعت اس جگہ پر قائم رہ سکتی ہے یا نہیں وغیر موضوعات اس ایجنڈا سے غائب ہیں۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
این جی ٹی کا طریقہ کار کچھ ایسا ہے کہ لوگوں کو لگنا چاہیے کہ اسے بھی ماحولیات اور لوگوں کی فکر ہے۔ اس حکم کو خوب مشتہر بھی کیا گیا، جس سے این جی ٹی پر لوگوں کا اعتماد برقرار رہے لیکن یہ سختی ایک دو سماعتوں تک ہی رہتی ہے۔ پھر مہینوں کے بعد جو حتمی فیصلہ آتا ہے وہ یقینی طور پر صنعت کے حق میں ہی جاتا ہے۔ تمل ناڈو کے توتیکورن میں واقع ویدانتا گروپ کے ’اسٹر لائٹ کاپر‘ کے تعلق سے این جی ٹی نے جو فیصلہ دیا تھا اس سے سبھی واقف ہیں۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
اسٹر لائٹ کاپر سے آلودگی کے خلاف تحریک چلا رہے 13 لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا، لیکن این جی ٹی، سینٹرل پالیوشن کنٹرول بورڈ اور مرکزی وزارت ماحولیات کو اس صنعت میں کہیں کوئی آلودگی نظر نہیں آئی اور صنعت کو چلانے کی منظوری فراہم کر دی گئی، اس بار بھی ایسا ہی ہونے کی امید ہے۔ گیس کا اخراج سبھی نے دیکھا ہے اور اس کے لئے 50 کروڑ روپے وصولے بھی کیے گئے ہیں، محض اتنا ہی ہوگا۔ اس صنعت کی طرف سے ماحولیات کے قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق سوال نہ تو کوئی پوچھے گا اور نہ ہی کوئی جواب ملے گا۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران مرکزی حکومت کی کسی وزارت نے اپنے معمول کے کاموں سے زیادہ کام کیا ہے تو وہ ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت ہے۔ اس وزارت نے زیادہ کام اس لئے نہیں کیا کہ اسے ماحول کی بڑی فکر ہے بلکہ اس لئے کیا کیونکہ اسے صنعت کاروں کی فکر ہے۔ جن بڑی منصوبہ بندیوں کو مقامی باشندوں اور ماہرین ماحولیات کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان سبھی کو آناً فاناً میں منظوری دے دی گئی یا اس سمت میں کام چل رہا ہے۔ اس وقت نہ تو عوامی سماعت کا کوئی چکر ہے اور نہ ہی موقع معائنہ کر کے تفصیلی مطالعہ کی کوئی ضرورت، لاک ڈاؤن کی آڑ میں سب کچھ معاف کر دیا گیا ہے۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
اس دور میں ’ایلیفنٹ ریزرو‘ میں کوئلہ کی کان کو منظوری فراہم کی گئی، ’وائلڈ لائف سینچوری‘ میں ڈریلنگ کی منظوری دی گئی اور وزیر اعظم کے پسندیدہ ’سینٹرل ویسٹا پروجیکٹ‘، جس کے تحت پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر عماریتں تعمیر ہونی ہیں، اسے بھی منظوری دے دی گئی۔ جنگلی حیات اور قبائلیوں کے حوالہ سے اہم وادیٔ دیبانگ میں 3097 میگا واٹ کی پن بجلی منصوبہ بندی اور مدھیہ پردیش میں ٹائیگر ریزرو کے درمیان یورینیم کی کانکنی کے پروجیکٹ کو بھی جلد ہی منظوری دے دی جائے گی۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت کے لئے ماحولیاتی تحفظ کوئی موضوع نہیں ہے، عوام کوئی موصوع نہیں ہے اور جنگلی حیات بھی کوئی موضوع نہیں ہے۔ یہ حکومت روز اول سے کچھ چنندہ صنعت کاروں کے مفادات کے حق میں کام کر رہی ہے اور عنقریب بھی اس چلن میں کوئی تبدیلی ہوگی، ایسی کوئی امید نہیں ہے۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 17 May 2020, 6:11 PM IST