سماجی

ان کو صحافی کہتے ہوئے شرم آتی ہے ... سہیل انجم

ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو صحافیوں کا یہ طبقہ بے حیائی و بے غیرتی کی تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور بلا وجہ اور بلا ضرورت مسلمانوں اور اپوزیشن لیڈروں کو گھسیٹ لیتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

ہندوستان میں صحافیوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو واقعی صحافت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو صحافت کے نام پر جہالت پھیلاتے ہیں۔ دوسری قسم کے صحافیوں کی تعداد اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اور ایسے صحافی الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ ہیں۔ ان کو نہ تو اپنے پیشے کے وقار کا کچھ لحاظ ہے اور نہ ہی اپنی عزت کا کچھ پاس۔ وہ برسراقتدار طبقے کی خوشامد اور مدح سرائی اور اپوزیشن پر بیجا تنقید اور نکتہ چینی کو ہی حقیقی صحافت سمجھے ہوئے ہیں۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ پیش آتا ہے تو صحافیوں کا یہ طبقہ بے حیائی و بے غیرتی کی تمام حدیں عبور کر جاتا ہے اور بلا وجہ اور بلا ضرورت مسلمانوں اور اپوزیشن لیڈروں کو گھسیٹ لیتا ہے۔ یہ لوگ جن نیوز چینلوں میں ہیں یا جن کے ایڈیٹر ہیں ان پر روزانہ چیخم دھاڑ لگی رہتی ہے اور کبھی مسلمانوں کو تو کبھی حکومت مخالف طبقے کو مغلظات سنائی جاتی ہیں۔ ان پر جو مباحثے ہوتے ہیں وہ اتنے گھٹیا اور سطحی ہوتے ہیں کہ کوئی باعزت شخص ان کو دیکھ نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کے بہت بڑے طبقے نے نیوز چینلوں کو دیکھنا بند کر دیا ہے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ابھی جب تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آیا تو یہ سارے نام نہاد صحافی مادرزاد برہنہ ہو گئے۔ انھوں نے تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کو ہندوستان میں کرونا جہاد چھیڑنے کا مجرم گرداننا شروع کر دیا۔ یہاں تک الزام عاید کیا گیا کہ نظام الدین کے مرکز میں ہزاروں مسلمان اسی لیے جمع ہوئے تھے کہ وہ ہندوستان میں کرونا پھیلا سکیں۔ ذرا سوچیے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو خود کرونا ہو گیا ہے۔ یعنی ان کی زندگی خود داؤ پر لگی ہوئی ہے اور ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کرونا پھیلانے کے لیے یکجا ہوئے تھے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ان صحافیوں کی نقالی میں بی جے پی کے کئی لیڈر بھی مسلمانوں پر کرونا جہاد چھیڑنے کا الزام لگانے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی بہت سے ان لوگوں نے بھی جو صحافی تو نہیں ہیں البتہ ٹویٹر پر اپنے خیالات پوسٹ کرکے خود کو دانشور سمجھتے ہیں، مسلمانوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ اس قطار میں عرب ملکوں میں رہنے والے کئی ہندو بھی شامل ہو گئے۔ انھوں نے بھی اسلاموفوبیا کی مہم شروع کر دی۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

جس پر عرب ممالک سے شدید رد عمل سامنے آیا۔ اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی، نے اس رجحان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور ہندوتوا برگیڈ کی اس مہم کے خلاف حکومت ہند کو متنبہ کیا اور یہاں تک کہ ان کو گاندھی جی کا پاٹھ پڑھایا۔ اس شدید رد عمل کی وجہ سے وزیر اعظم نریند رمودی کو ایک ٹوئٹ کرکے یہ کہنا پڑا کہ کرونا وائرس حملہ کرنے سے قبل مذہب، ذات، برادی، رنگ، نسل اور زبان نہیں دیکھتا۔ لیکن یہ ایک سادہ سا بیان ہے۔ شاید وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ حالانکہ ان کو کھل کر کہنا چاہیے کہ کرونا کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کرنا بند کیجیے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ان کے بیان کے بعد مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے یہ کہہ کر مسلمانوں کو اور پوری دنیا کو ایک مژدہ سنانے کی کوشش کی کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے جنت ہے۔ واہ نقوی جی یہ وہی مسلمانوں کی جنت ہے جہاں ابھی فروری ماہ میں شمال مشرقی دہلی میں مسلم مخالف فساد کروا کر متعدد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور اسی جنت میں مسلمانوں کی اندھادھند گرفتاری بھی ہو رہی ہے۔ اس جنت کی اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں جن کو گنانے کا یہ موقع نہیں ہے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

بہر حال بات ہو رہی تھی ایسے صحافیوں کی جو صحافی تو نہیں ہیں ہاں ایک سیاسی جماعت کے ترجمان ضرور ہیں۔ انھیں میں ایک صحافی کا نام ارنب گوسوامی ہے۔ وہ پہلے این ڈی ٹی وی میں تھے۔ اس کے بعد ٹائمس ناؤ میں تھے اور اب انھوں نے اپنا انگریزی چینل کھول لیا ہے جس کا نام ریپبلک ہے۔ اس کا ایک ہندی چینل بھی ہے آر بھارت کے نام سے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ دونوں چینل ایک بی جے پی ایم پی کے ہیں۔ ارنب اپنی فطرت کے مطابق حکومت کی خوشامد اور اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو گالیاں دینے میں پیش پیش رہتے ہیں۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ابھی جب پالگھر میں دو سادھوؤں کی موب لنچنگ ہوئی تو پہلے اس قبیل کے صحافیوں نے اس کے ڈانڈے مسلمانوں سے ملانے کی کوشش کی اور پھر عیسائیوں سے۔ بی جے پی بھی اس کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے لگی۔ جب معاملہ کافی آگے بڑھ گیا تو مہاراشٹر کے وزیر داخلہ کو سامنے آنا پڑا اور واضح طور پر یہ کہنا پڑا کہ جن لوگوں نے ان دونوں سادھوؤں کو مارا ہے وہ مسلمان نہیں ہیں۔ انھوں نے اس معاملے میں گرفتار 101 افراد کی فہرست جاری کر دی اور کہا کہ یہ سارے کے سارے ہندو ہیں۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

اس معاملے میں ارنب نے اپنی فطرت کے مطابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ہتک آمیز انداز میں نشانہ بنایا اور یہاں تک کہا کہ انھوں نے ہی ان دونوں سادھوؤں کا قتل کرایا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر یہ الزام عاید کرتے رہے۔ کانگریس نے ان چینلوں پر اپنے نمائندے بھیجنے بند کر دیئے ہیں۔ اس لیے کوئی بڑا لیڈر ارنب کے الزام کو غلط ثابت کرنے یا ان کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے موجود نہیں تھا۔ ایک آچاریہ موجود تھے لیکن وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

ان کی اس حرکت کے خلاف کانگریس کارکنوں کی جانب سے مختلف شہروں میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ ادھر ارنب نے ایک ویڈیو جاری کرکے لوگوں کو یہ بتایا کہ ان پر حملہ ہوا ہے اور حملہ آور یوتھ کانگریس کے لوگ تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اپنے خلاف ایف آئی آر درج ہونے اور گرفتاری کی تلوار لٹک جانے سے ارنب پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور بھاگے بھاگے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

سپریم کورٹ نے بھی جو کہ اہم معاملے میں فوری سماعت نہیں کرتا اس معاملے پر فوراً سماعت کی اور ان کے خلاف کارروائی پر روک لگا دی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کے بعض اداروں، حکومت اور عدلیہ کے مابین کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ جبھی تو کرونا کی وجہ سے لاک ڈاون میں جبکہ ہر کام بند ہے سپریم کورٹ نے فوراً سماعت کی اور ارنب کو راحت دے دی۔

لیکن ارنب یہ نہ سمجھیں کہ انھیں واقعی راحت مل گئی ہے۔ کانگریس کارکن ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ وہ ان کو جیل میں ڈلوا کر ہی دم لیں گے۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 26 Apr 2020, 9:40 PM IST