گزشتہ دنوں ملک میں جی ڈی پی کی خودکشی کے نتیجہ میں ملکی معیشیت کے جنازہ کو کاندھا دینے کے لئے ہماری وزیر مالیات نے یہ کہہ کر اپنا کاندھا پیش کیا کہ وہ بذات خود یا ان کی حکومت بھی ملکی معیشیت کو موت کی نیند سو جانے سے نہیں روک سکتے کیونکہ یہ ’ایکٹ آف گاڈ‘ یعنی خدائی کام ہے جس میں دخل اندازی کرنا کسی بھی انسان کے لئے گھور پاپ ہے۔ یہ تو بھلا ہو اس کورونا کا جس نے ملک کو درپیش تمام سنگین مسائل کو بھگوان کے کھاتہ میں ڈلوا نے کی راہ آسان کردی جس کے سبب آج حکومت کے اہلکار سینہ ٹھوک کر ملک کے ہر مسئلہ کو 'ایکٹ آف گاڈ ' کہہ کر اپنا پلہ جھاڑنے کے قابل ہوسکے۔ اک جانب پالیسیوں کی ناکامی کو چھپانے کے لئے کورونا مہا ماری کا پردہ بڑا موثر ثابت ہو رہا ہے تو دوسری جانب اسی مہا ماری کے سبب عوام کی نقل وحرکت کو پابند کرنے سے ان کی قوت احتجاج سلب کرلی گئی ہے۔ شاید اسی لئے اس مہا ماری کو گمبھیر مسئلہ کی جگہ 'اوسَر' یعنی اپارچونٹی بتایا جارہا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
فاضل وزیر کیونکہ ہندوستانیوں سے انگریزی ہی میں مخاطب ہوکر راشٹر وادی ہونے کا ثبوت دینا پسند فرماتی ہیں اس لئے انھیں مجبوراً "’ایکٹ آف گاڈ‘ کا سہارا لینا پڑا ورنہ اگر ہماری شمالی ریاستوں کا کوئی راشٹروادی لیڈر وزیر مالیات ہوتا اور اس مباحثہ میں اپنا 'یوگ دان' کرتا تو ایودھیا یا رام مندر سے کم پر راضی نہ ہوتا اور اس معاشی بحران کو بھگوان کا وردان گردانتا، جسے ہم سب بھارت واسی 'اوسر' سمجھ کے تھالی بجاکر خوشی خوشی قبول کرلیتے۔ اس ’ایکٹ آف گاڈ‘ کے منتر سے اب کتنے ہی اگلے پچھلے حساب چکتا کرنے کی سبیل نکل آئی ہے۔ اب وہ چاہے نوٹ بندی سے ٹوٹی غریب عوام کی کمر ہو یا جی ایس ٹی کے ہنٹر سے چھوٹے کاروباریوں کے لہولہاں جسم کے رستے زخم ہوں، سب ہی کے زخموں کو آج کل ’ایکٹ آف گاڈ‘ مرہم لگایا جا رہا ہے۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
روز بروز بڑھتی ان عوامی مشکلات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جن کا حل ڈھونڈنے یا اس سمت کچھ موثراقدامات اٹھانے سے زیادہ آسان عوام کو بھگوان کے گھر کا راستہ دکھانا ہے۔ کچھ سیدھے سچے عوام نے تو ان تمام مشکلات کو آسمانی قہر مانتے ہوئے ان سے جلد چھٹکارہ پانے کی غرض سے بھگوان کے گھر میں پرساد چڑھانے کے لئے قطاریں بنانا شروع کردی ہیں۔ بھگوان کے گھر پہنچ کر سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں ہر مشکل کا علاج سو دوسو روپئے کا پرساد چڑھا کر بآسانی ہوجاتا ہے۔ رہی سہی کسر وہاں موجود بھگوان کے نمائندے پوری کردیتے ہیں جو اپنے علم و فراست کے ذریعہ ہر سوالی کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ان کی تمام مشکلات بشمول کورونا، بھک مری، بے روزگاری، جبری ہجرت وغیرہ سب بھگوان کا کام ہے جسے ہر انسان کو بسر وچشم خوشی سے قبول کرنا چاہیے۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
بھگوان کے یہ نمائندے عوام کو اکثر یہ بات بھی سمجھاتے ہیں کہ ان مشکلات کے لئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا اور حکومت کی شکایت کرنا گویا بھگوان کا شکوہ کرنا ہوگا جو مہا پاپ ہوتا ہے۔ لہذا اگر نرک سے بچنا ہے تو اپنا منہ بند رکھو اور حکومت کی پالیسیوں کےخلاف کچھ کہنے سے پہلے اوپر کے نرک سے زیادہ دھرتی کے نرک یعنی جیل کے بارے میں سوچو جہاں آج کل حکومت مخالف لوگوں کی موجودگی کے سبب تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ آج کل لوگ وہاں پہنچتے ہی اوپر کے نرک میں جلد جانے کی دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی غیرت مند شخص بھگوان کے ان نمائندوں کو چیلنج کرنے کی غلطی سے ہمت کر بیٹھے تو اس پر فوراً دیش دروہ کی دفاعیں لاگو کردی جاتی ہیں۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
جس طرح اک گاوں میں وہاں کے زمین دار نے کسانوں کی زمینیں ہتھیانے کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ فصل کی بوائی کے وقت اس نے کسانوں کو دیئے گئے قرض کے عوض ان کی زمینوں کو اپنے پاس رہن رکھوا لیا۔ جب فصل تیار ہوگئی تو اس میں اپنے اہلکاروں سے آگ لگوادی۔ اپنی سازش پر پردہ ڈالنے کے لئے اس نے گاوں کی پنچایت بلائی جس میں گاوں کے بڑے مندر کے پروہت کو بھی بلایا گیا۔ لٹے پٹے قرض کے بوجھ کے تلے دبے کسانوں کے سامنے زمیندار کے ساتھ گاوں کے پروہت جی نے یہ بات دہرائی کہ یہ تیار فصلوں میں اچانک آگ لگ جانا دراصل بھگوان کا کام ہے۔ اس میں ہم سب بے بس ہیں۔ نتیجتاً سب کسانوں کو اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مگر یہ کھلی دھاندلی دیکھ کر اس مجمع میں سے اک نوجوان اٹھا اور اس نے اک پتھر آٹھاکر پروہت جی کے سر پر دے مارا۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر پوچھا کہ آخر اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ تو اس نے جواب دیا: "یہ میں نے نہیں کیا یہ تو بھگوان کا کام ہے ہم سب تو بے بس ہیں" اس نوجوان کی بات کا کوئی جواب نہ پاکر اس کے خلاف انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے مجبوراً دیش دروہ کا مقدمہ قائم کرنا پڑا۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
کیونکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے لیکر حالیہ فارم اور لیبر بل تک سب کچھ بھگوان کے کھاتہ میں ڈالا جا رہا ہے اس لئے بھگوان کے یہاں بھی فائلوں کا ڈھیر لگنے لگا ہے اور ابھی تک کسی معاملہ کی بھی سنوآئی نہی ہوسکی ہے۔ ہمارا دل کہتا ہے کہ بھگوان کی ترجیحات بھی ملک کے کارپوریٹ سیکٹر کی ترجیحات کے مطابق ہی سیٹ کرائی جا رہی ہوں گی۔ اس لئے غریب عوام کو بے روزگاری اور بھک مری یا کسانوں کی خودکشیوں جیسے چھوٹے چھوٹے معاملات کے سلسلے میں بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بھگوان کے سامنے حکومتی اداروں اور انڈسٹریز کا نجی کرن، بنکوں کی بدحالی اور سرحدوں پر تناو جیسے اہم معاملات زیر غور ہیں، ان کے پاس یہ چھوٹے چھوٹے معاملات دیکھنے کا ٹائم کہاں ہے۔ ویسے کئی صوبوں میں الیکشن بھی سر پر کھڑے ہیں جس کے لئے کارپوریٹ سیکٹر کو ناراض بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات ان پڑھ جتنا کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
ایک بہت مشھور معروف مندر میں ملک کی سب سے امیر ترین شخصیت شری اجمانی بھگوان کی مورتی کے سامنے کھڑے ہوئے اپنے لئے کروڑوں روپئے کے کسی بہت بڑے پروجیکٹ کو گورنمنٹ کی جانب سے ایوارڈ ہوجانے کی دعا مانگ رہے تھے۔ ساتھ ہی کھڑا بھگوان کا دوسرا بھکت بھی بھگوان سے گڑگڑا کر دعا مانگ رہا تھا: "بھگوان مجھے پانچ ہزار روپئے دیدو گیارہ روپئے کا پرساد چڑھاؤں گا"
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
اجمانی صاحب نے ساتھ کھڑے بھکت کی دعا سن کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے پانچ ہزار روپئے اس بھکت کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولے: "لے بھائی یہ بھگوان سے اپنی مانگی ہوئی رقم پکڑ۔ تیرے پانچ ہزار کے چکر میں کہیں بھگوان کا دھیان کروڑوں روپئے کی پروجیکٹ کی دعا سے بھٹک گیا تو میرا تو کروڑوں کا نقصان ہوجائیگا" بس اسی طرح غریب عوام کو پانچ کلو چاول کے پیکٹ دے کر سکون سے سو جانے کے لئے کہا جارہا ہے۔ ایک غریب نے کسی حکومتی اہلکار سے پوچھا جب سارا ملک بھگوان ہی چلا رہا ہے تو پھر آپ کیا کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے بڑے تحمل سے جواب دیا: " ہم عوام سے تھالی بجوا رہے ہیں"
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Oct 2020, 8:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز