انگلینڈ کے سابق وزیراعظم ونٹسن چرچل (Wintson Churchil) کا قول ہے کہ اگر آپ جہنم سے گزر رہے ہیں تو رکیے مت، چلتے رہیے، آخر جہنم کا راستہ ختم ہو جائے گا ۔ چرچل صاحب نے 1897 میں موجودہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں وقت بھی گزارا اور مالاکنڈ میں ایک چھوٹی سی جنگ بھی لڑ ی۔اسی وجہ سے تجربے اور دانائی کی یہ باتیں ہیں ۔
سوائے عشق کے جہنم اورجنت کا تصور بلا تفریق تمام مذاہب میں دن اور رات کی طرح ایک حقیقت ہے۔ لیکن اپنے ہاں پھر بھی کچھ الگ سا سلسلہ ہندوکش ہے۔ جنت کی ٹکٹوں کی بلیک مارکیٹ پے مولوی لوگوں کا قبضہ ہے۔ ٹکٹ کا حصول اتنا مشکل ہے کہ جوئے شیر لانا ( ناممکن کام کرنا) آسان ، اور اَرزاں (سستا) اتنا کہ بے ضمیری بھی مہنگی۔ ایک چلہ ، قربانی کی کھال، ختم اور مجلس آپ کو جنت کی طرف جانے والی تیز گام پہ بٹھا دیتے ہیں۔
Published: undefined
بقول مرشد:
اک ہی صف میں کھڑے ہوگئے پنڈت ، پادری، مولوی اور ڈیماگاج
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندے کا پتر سوا ئے ختم ، مجلس اور پرشاد
Published: undefined
اس طرح جنت اور دوزخ کے فیصلوں کی عدالت بھی تقریباً ہر کوچے میں لگتی ہے۔ اسی دارِ فانی میں فردوسِ بَریں کی بشارت بھی ملتی ہے اور وصلِ جہنم کا عندیہ بھی ۔ الغرض مذہب فروشی کا یہ عالم ہے کہ جلد ہی کوئی مجدد آتا ہوگا۔ وطن ِعزیز میں دورِ حاضر کے مقتدایانِ دین (مذہبی رہنما) نے اتنے فتوے اور توجیحات متعارف کروا دیں ہیں کہ اگر انہیں عین بعین درست مان لیا جائے تو جاگتی آنکھوں اور سنتے کانوں تمام اکابرین ، اقارب، رقاب اور احباب سے جہنم کے کسی دروازے ، چوراہے یا ٹول پلازے پہ ملاقات کا غالب اندیشہ ہے۔
مرشد فرماتے ہیں کہ جو کچھ مولوی صاحبان سے سنا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ جہنم اسی دنیا کی طرح کی جگہ ہو گی صرف جغرافیائی حقیقتیں تھوڑی مختلف ہو نگی۔ مثلاً جہنم میں بجلی،پانی اور گیس کا شدید بحران ہوگا اور سورج گرمیوں میں سوا نیزے پہ آجاتا ہو گا۔ کہیں گھپ اندھیرا ہو گا تو کہیں قہر ِالہی۔ کہیں قرہ ارض پے قحط سالی بچھی ہو گی تو کہیں سیلاب ِحوادث سےزمین کا دم گھٹتا ہو گا۔ بد لچھن ہمسائےاور کچے مٹی کے گھروندے ہونگے، پہننے کو صرف چیتھڑے اور کھانے کو عموماً باسی کڑھی اور بے ذائقہ شوربا۔ دودھ کی نہریں بہتی ہونگی لیکن یوریا کھاد کی آمیزش سے جھاگ کناروں پہ امڈ رہا ہو گا۔ مصیبت کی دھوپ میں رنج و الم کا سایہ ہو گا۔ افرا تفری ایسی ہو گی کہ عمر رشتے اور مرتبے کا لحاظ رخصت ہو جائے گا۔ باپ اور بیٹا بھی آمنے سامنے آ جا ئیں گے۔
Published: undefined
جہنم کے دارالخلافہ پے بد مزاج اور اکھڑ چوکیداروں کی لشکر کشی ہوگی ، جو بلاوجہ اور بغیر کاروائی کسی بھی باسی کو اچکتے ہونگے۔ کچھ اہلیانِ جہنم چوکیداروں کے اس کنبے سے وہشت کھاتے ہونگے تو کچھ ان کے جوتوں میں چیری بلاسم (پالش)سے نفاست لاتے ہونگے۔ جہنم کے سیاسی اور مذہبی پیشواؤں میں فرق صرف داڑھی کا ہو گا۔البتہ مقتدی(سپورٹرز) شکل و صورت اور حرکات میں یکساں دکھتے ہونگے۔ ایسی پائیدار دانست ہوگی کہ ہر سال دو سال بعد اپنا قائد مقرر کرتے ہونگے اور پھرٹوٹی سڑکوں پے جلسے جلوس نکال کر اپنی قسمت پے خود ہتھوڑے مارتے ہونگے۔
سرخیلوں کو وطن بدر کرنا اور تختہ دار تک دھکیل کر اسکرین والے لڈو اور سراغ رساں چوپائے (کتے) کی چربی والے گھی میں بنے بارِخَر کے کوفتے کھانا بہترین مشغلہ ہوگا۔ اس سب کے باوجود جہنم کا قاضی ُ الْقُضاۃ (Chief Judge) لگن اور نیک نیتی سے جہنم جانے والی موٹر وے ہموار کر تے دبلا ہو تا ہو گا۔ کاروبار دوزخ کا دائرہ انہی لڈوؤں ، چوپاؤں اور قضات کی پرکار (جیومیٹری کا ایک آلہ) سے ہر روز مزید گہرہ ہوتا ہو گا۔ اور ساکنان جہنم اپنی قسمت کی کہکشاؤں کو کوستے ہونگے۔ راقم نے مرشد سے استفسار کیا “ حضور یہ جہنم تو بظاہر کوئی جانی پہچانی سی جگہ لگتی ہے۔“
Published: undefined
(مضمون نگار پاکستان میں ڈپٹی کمشنر اِنکم ٹیکس سیلز ٹیکس کے عہدے پر فائز ہیں، ای میل : akbarmayo@gmail.com)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز